Topics

استاد کی ضرورت


                وہاں آئے ہوئے ایک صاحب میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب سے پوچھ رہے تھے، جب آپ کے پاس کتاب موجود ہے تو پھر آپ کسی انسان سے کیوں رجوع کرتے ہیں۔ جب علم دستاویز کی صورت میں ہر جگہ دستیاب ہے تو پھر بندے کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ میاں صاحب یوں تو مرنجان مرنج سے انسان ہیں لیکن اپنے مرشد سے والہانہ لگاؤ نے انہیں اس وقت ابھار دیا۔ وہ کسی قدر جوش میں آ کر دلائل دیئے چلے جا رہے تھے۔

                 ’’جب اناٹومی کی کتب ہر گھر میں موجود ہیں تو آپ ہمیں کتاب پڑھ کر اپنڈکس کا آپریشن کیوں نہیں کرنے دیتے؟ جب تعزیرات پاکستان عام دستیاب ہے تو آپ مجھے وکیل پکڑنے کا مشورہ کیوں دیتے ہیں؟ آپ مجھے دسویں جماعت کی Mathsہی پڑھ کر دکھا دیں۔ آپ نے پڑھ بھی لی تو سمجھنے کے لئے بہرحال استاد کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے وسن  پورہ دیکھا ہے؟ وہاں پہلی بار جانا ہو یا تو کوئی آپ کو ساتھ لے کر جائے گا اور یا آپ پتہ پوچھ پوچھ کر پہنچیں گے۔ محض کتاب میں وسن پورہ کا نام پڑھ کر کبھی کوئی وسن پورے نہیں پہنچا۔‘‘

                وہ صاحب لاجواب ہو کر کج بحثی پر اترنے لگے تو میاں صاحب نے انہیں کھانے کی دعوت دی کہ آپ لنگر میں شامل ہوں اور یہ باتیں پھر کسی اور وقت سہی اور یہ کہہ کر انتظامات میں مصروف ہو گئے۔

                مرشد کریم کے پاس آنے والوں میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو کسی نہ کسی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی بیماری کا علاج کروانا ہوتا ہے۔ جادو ٹونے یا آسیب کا وہم ان کو ستا رہا ہوتا ہے یا پھر انہیں کسی الجھن کسی مخمصے نے ایسا جکڑا ہوتا ہے کہ ان کو نجات کی یہی ایک صورت نظر آتی ہے کہ وہ کسی اللہ والے کے در پر حاضر ہوں۔ اس کی نظر کرم کے خواستگار ہوں۔ اس کی مجیب الدعواتی سے فیض یاب ہوں۔ اب یہ ایک عجیب بات ہے کہ جو بھی ان تک پہنچتا ہے اپنے یقین کے مطابق مراد پاتا ہے۔

                لوگ اپنے مسائل، بیماریوں اور الجھنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان تک آتے ہیں اور وہ محض مخلوق کی خدمت کے جذبے کے تحت ان کے مسائل کے حل میں کچھ اس طرح سے جتے رہتے ہیں کہ تھکن سے چور ہیں مگر علاج ہو رہے ہیں۔ خانگی اور نجی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے مگر مسائل حل ہو رہے ہیں۔ سوشل زندگی ختم ہو کر یہیں تک سمٹ گئی ہے۔ اکثر صبح سے شام ہو جاتی ہے اور لوگ ہیں کہ باری کے منتظر سینکڑوں مل لیتے ہیں تو بیسیوں ابھی باقی……ناچار انہیں اگلے روز آنے کا کہنا پڑتا ہے۔ حالانکہ مریضوں کو نمٹانے کی رفتار اتنی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ مریض سامنے گیا۔ نام پوچھا۔ مریض نے حال سنانا شروع کیا آپ نے نسخہ لکھنا۔ ادھر مریض کی روداد ختم ادھر نسخہ اس کے سامنے۔

                فرمایا’’مریض سے روداد تو محض اس کی دلجوئی کے لئے سنتے ہیں۔‘‘

                 اس خدمت خلق کی اپنے روحانی فرزندوں کو تلقین کرتے ہیں تو فرماتے ہیں۔

                ’’اللہ سے دوستی کرنا ہو تو وہی کیجئے جو اللہ کرتے ہیں اور اللہ تو اپنے بندوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔‘‘

                دوسری قسم کے لوگ جنہیں میں اپنے مراد کے گرد منڈلاتے دیکھتا ہوں۔ وہ ہوتے ہیں جنہیں مرشد کو دیکھنا، مرشد کی باتیں سننا اور خود کو کسی نہ کسی طور ان کی توجہ کے دائرے میں لانا یا اس کی تگ و دو کرنا بہت بھلا لگتا ہے۔ ایسے بھی لوگوں کو دیکھا ہے کہ ان کو محض ان کا نظر آ جانا ان کی تسکین کا باعث ہوتا ہے وہ دیدار مرشد سے خود کو سیراب کرتے ہیں۔ اسی سے ان کی روحیں شانت ہو جاتی ہیں۔ انہیں اپنے مراد کی قربت مست و بے خود کر دیتی ہے۔ وہ اسی میں خوش ہوتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا کام کریں کہ ان کا مرشد ان کی طرف متوجہ ہو جائے۔ جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ چہرے پرسکون کی لہریں جگمگانے لگتی ہیں اور محبت کی شعاعیں ان کے بشرے سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔