Topics

تخلیقی نظام


نیاز احمد عظیمی صاحب نے مرشد کریم کو دعوت خطاب دی تو انہوں نے وہاں آنے والوں کے ذہنوں کی آبیاری کو تشنہ روحوں کی سیرابی کو بات کا آغاز تخلیقی نظام سے کیا اور بارش کا پورا نظام اس طرح سے بیان فرمایا کہ:

                ’’پانی کا ذرات میں بدلنا۔ ہوا کا ان ذرات کو اڑا کر لے جانا، ہوا کے دباؤ سے بادلوں کا نچڑ کر برسنا۔ پہاڑوں پر چشموں کا ابلنا۔ برف بننا۔ برف باری ہونا۔ ندی نالوں کا رواں ہونا۔ دریا بننا، ڈیم بنا کر نہریں نکال کر اس نظام میں انسانی تصرف کرنا……ہر شئے کا منظر آنکھوں کے آگے سے گزرتا چلا گیا، یوں لگا ہم بارش سے متعلق پورے نظام کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔

                پھر انسانی زندگی کے آغاز اور بیج سے پودا بننے کی مثالوں سے واضح فرمایا کہ ہر شئے خواہ وہ شہتوت کے بیج جتنی چھوٹی ہو یا انسان جیسی رفیع الشان……ایک واضح سسٹم کی وجہ سے قائم ہے۔

                پھر پانی کے قوانین بتاتے ہوئے فرمایا کہ پانی کی فطرت نشیب کی طرف بہنا ہے۔ آپ سوچیں کہ یہ درختوں میں اپنی فطرت بدل کر اوپر کیوں چڑھنا شروع کر دیتا ہے اور ناریل کے درخت پہ ناریل میں ڈیڑھ گلاس صاف شفاف پانی سو فٹ کی بلندی پر کس حفاظت سے سٹور ہو جاتا ہے اور وہی پانی ناریل بنتا ہے، جم کر ناریل کی گری بنتا ہے، اس گری میں سے تیل نکلتا ہے، اس گری کے اوپر لکڑی بنتی ہے، اس کے اوپر بالوں کی تہہ جما کر اس لکڑی کو ٹوٹنے سے بچانے کا اہتمام ہوتا ہے، یہ سب ایک سسٹم کے تحت ہے۔

                زمین کے اندر سے تیل، مٹی کا تیل اور پیٹرول نکلنا بھی ایک سسٹم کے تحت ہے۔ ایک طرف مٹی درختوں کو نشوونما دیتی ہے اور دوسری طرف اس کے اندر وہ تیل نکل رہا ہے جو پودوں کے لئے موت ہے۔

                اس سسٹم اور نظام کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ بھیڑ سے بکری یا زرافہ سے اونٹ پیدا ہو یا اس کے برعکس ہو۔ ایک ماں کی آٹھ اولادیں ہوتی ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف۔ فرمایا۔ یہ تمام تخلیقی نظام دراصل معین مقداروں کا نظام ہے۔ ان معین مقداروں ہی کے سبب کبھی سیب کے درخت پر آم نہیں لگیں گے اور آم کے درخت پر کوئی دوسرا پھل۔ جس طرح ایک ماں سے پیدا ہونے والے بچے آپس میں ایک جیسے ہونے کے باوجود مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح ایک ہی زمین سے اگنے والے درخت، ایک ہی نظام کے تحت بننے والے پودے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کیا شان ہے کہ زمین ایک۔ پانی وہی، ہوا ایک، لیکن ہر شئے دوسری سے مختلف۔ صرف آم ہی کی دو سو سے زائد اقسام بتائی جاتی ہیں۔

                فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے یہ تخلیقی نظام اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتے، جب تک ان کو ایک واحد ہستی کنٹرول نہ کر رہی ہو۔ سسٹم کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس میں ٹکراؤ اور الجھاؤ نہ ہو۔ ایک سسٹم دوسرے سسٹم کی خدمت سے اس کے ساتھ تعاون سے انکار نہیں کرتا۔ کر ہی نہیں سکتا۔ اس پورے سسٹم میں بے شمار مخلوقات ہیں جو اس سسٹم بنانے والے کی محتاج ہیں۔ مخلوق کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کا محتاج ہے، اللہ کی ذات ذی احتیاج نہیں۔ لیکن ہر سسٹم کی ایک چیز دوسری چیز کی محتاج ہے۔

                اس نظام کو بنا کر اللہ نے ایک اور نظام بھی تخلیق کیا۔ یعنی وسائل کی تقسیم کا نظام اور اس نظام کو کنٹرول کرنے کا چارج اس ہستی کو دیا جسے رحمت اللعالمین کا خطاب دیا۔ یعنی ایک ایسی ہستی جو وسائل کو اپنی رحمت سے تقسیم کرے۔ اللہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس لئے پیدا کیا کہ وسائل کی تقسیم کے ساتھ نظام کو جاری وساری رکھا جائے۔ اگر تقسیم میں رحمت شامل نہ ہو تو بے شمار لوگ محروم رہ جائیں۔ محبت نہ ہو تو سسٹم میں خلل پیدا ہو جائے۔ اسی بات پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے اپنے نور سے پیدا فرمایا۔

                اللہ تعالیٰ تمام عالمین کے رب ہیں۔ ان کو وسائل فراہم کرتے ہیں، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان وسائل کو تقسیم کرتے ہیں۔ تقسیم کے اس سسٹم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ میں نے اپنے مرشد حضور قلندر بابا اولیاء سے اس سسٹم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے نور پیدا ہوا۔ پھر حرکت پیدا ہوئی، بجلی ہائی ٹینشن تاروں میں چلتی ہے، اگر گرڈ اسٹیشن نہ ہون، ٹرانسفارمر نہ ہوں تو سب کچھ جل جائے۔ حضورﷺ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی طاقت کو اپنے ذہن پر برداشت کر کے اس کو عالمین میں اس طرح پھیلاتے ہیں کہ ہر سسٹم کو اس کی ضرورت کے مطابق ان تجلیات کی طاقت مہیا ہوتی رہے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔