Topics

روشنی اور آواز روحانیت کی دشمن ہیں


وہاں ایک بات اور بھی فرمائی:

                ’’روشنی اور آواز روحانیت کی دشمن ہیں لیکن یہ سلسلہ عظیمیہ کا اعجاز ہے کہ ان دونوں کے بھرپور اضافے کے باوجود لوگوں کو روحانی سکھائی جا رہی ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی لئے تو غار حرا جایا کرتے تھے حالانکہ اس وقت نہ راتوں کو اتنی تیز روشنی ہوا کرتی تھی اور نہ ہی آوازوں کا یہ بے ہنگم شور و غل۔‘‘

                صبح ناشتے کے بعد حضور قلندر بابا اولیاء کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے پاس دو اصحاب آیا کرتے تھے۔ وہ آتے اور کافی دیر بیٹھے رہا کرتے۔ الٹے سیدھے سوالات پوچھتے رہتے۔ ایک بار انہوں نے حضور سے دریافت کیا:

                ’’آپ کیا ہیں؟‘‘

                فرمایا:’’ان کے ذہن میں ہو گا کہ حضور کا تکوینی لحاظ سے رتبہ یا عہدہ کیا ہے؟‘‘

                حضور قلندر بابا اولیاء نہ جانے اس وقت کس موڈ میں تھے۔ فرمایا:

                ’’میں خدا ہوں۔‘‘

                اس پر وہ صاحبان خاموش ہو گئے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے اپنے مرشد حضور قلندر بابا اولیاء سے عرض کی:

                ’’حضور! آپ نے ان کے سامنے ایسا کیوں فرمایا؟‘‘

                انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا:

                ’’خواجہ صاحب میں خود کو خدا کہنے سے خدا ہو تو نہیں گیا لیکن ان سے تو پیچھا چھوٹا۔‘‘

                اور وہ واقعی اس کے بعد دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔

                فرمایا:’’اسی طرح ایک صاحب ہیں۔ آج کل ملیر میں رہتے ہیں، آپ کراچی آئیں گے تو میں آپ کو ان سے ملواؤں گا۔ وہ حضور قلندر بابا اولیاء سے ملنے آتے تو ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ ایک بار وہ کھڑے تھے کہ حضور قلندر بابا اولیاء نے ان سے کہا:

                ’’اللہ میاں آئے ہوئے ہیں!‘‘

                انہوں نے بسم اللہ پڑھی۔ زمین پر بیٹھے اور سجدہ ریز ہو گئے۔ اللہ نے ان پر ایسا کرم کیا کہ ان کی باطنی آنکھ کھل گئی۔ آج کل وہ ملیر میں خدمت خلق کرتے ہیں۔

                پھر فرمایا:’’یہ سب یقین کرنے کی بات ہے۔ انہوں نے یقین کیا اور مراد کو پہنچے، دوسروں نے نہیں کیا، وہ محروم رہے۔‘‘

                ایک صاحب نے مہنگائی کا تذکرہ کیا اور شکوہ سنج انداز میں کہا کہ اب اس مہنگائی کے ہاتھوں گزارہ کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اس پر فرمایا:

                ’’اجی! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے لوگ اتنا کہاں کھاتے تھے، جس قدر آج کل کھاتے ہیں۔ پہلے مرغی مہینوں میں کبھی ایک آدھ بار پکتی تھی۔ لوگ پاؤ بھر گوشت خریدتے تھے۔ گھر میں اے سی، فریج اور ٹی وی وغیرہ کہاں ہوتے تھے؟ اب ہر آسائش پہلے سے بہتر ہے، فراوانی میں ہے۔ پہلے لوگوں کے پاس ایک دو جوڑے جوتے ہوا کرتے تھے، اب جس گھر میں دیکھو، درجنوں جوتے پڑے سوکھ رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں مہنگائی ہو گئی ہے، تو کیا آپ نے گوشت خریدنا بند کر دیا ہے؟ اب کسی وقت دسترخوان پر گوشت نہ ہو۔ یہ آپ کو گوارا ہی نہیں۔ یہ سب ناشکری کی باتیں ہیں۔‘‘

                ہم خود بھی مہنگائی کا رونا رونے والوں میں پیش پیش رہا کرتے تھے، یہ زاویہ نظر دیکھ کر تو یوں لگا جیسے آنکھیں ہی کھل گئی ہوں، مہنگائی کا رونا ہم فیشن کے طور پر کرتے ہیں اور اس طرف نظر ہی نہیں جاتی کہ اس طرح ہم ناشکری کے مرتکب ہو کر شیطان کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ فقیر کی نظر کتنی گہری ہوتی ہے، وہ آپ کے اندر ہونے والی خرابیوں سے آپ کو اس غیر محسوس طریقے سے روشناس کراتا ہے کہ آپ کو یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ آپ کے اندر اس نے کتنی بڑی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔

                ایک بار لاہور مراقبہ ہال میں ایک صاحب نے کسی کے بارے میں بتایا کہ فلاں صاحب بہت برے آدمی ہیں۔ اس پر منہ موڑ لیا اور دبے سے لہجے میں کہا:

                ’’چھوڑیئے! آپ کو کہنے کی کیا ضرورت۔‘‘

                یعنی آپ غیبت کے مرتکب ہو رہے ہیں، باز آ جایئے۔ اگر وہ برے ہیں تو ہوا کریں ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم دلچسپی لیں اور تذکرہ کریں۔ کہنے کے انداز میں تو یہ سب تھا مگر الفاظ میں شفقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دونوں کی عاقبت کی فکر البتہ صاف نظر آ رہی تھی۔

                ناپسندیدہ بات پہ رد عمل کا عجب انداز ہے۔ بات سنتے ہی منہ موڑ لیں گے اور یہ بھی صرف اس وقت جب بات سن کر آپ کی اصلاح کرنا مقصود ہو۔ ورنہ آپ بات کرنا چاہ رہے ہیں اور یہ اٹھ کر چل دیں گے، آپ اس اشارے کو نہ سمجھیں اور ڈھٹائی پر اتر آئیں تو پھر کھری کھری سنا دیں گے۔ ایک صاحب نے کہا:

                ’’آپ میرے لئے دعا کریں۔‘‘

                اس پر فرمایا:’’میں آپ کے لئے دعا کیوں کروں؟ بھئی! مجھے پہلے اس کا خیال نہیں رہتا تھا، میں اچھا جی۔ جی ہاں، کہہ دیا کرتا تھا مگر پھر خیال آیا کہ یہ تو میں جھوٹ بولتا ہوں، میں گنہگار ہوں۔ آپ دعائیں بہت کرواتے ہیں، مگر عمل کوئی نہیں۔ اب آپ عمل کریں، دعاؤں کو چھوڑیں۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔