Topics

اللہ میاں کس قدر خوبصورت ہیں


                ایک دن لاہور اور مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کے باہر کچھ ایسے ہی سرشار لہجے میں میرا مراد اپنے مرید سے گویا ہوا۔

                ’’اللہ میاں کس قدر خوبصورت ہیں۔ کس قدر پیارے ہیں۔‘‘

                اس وقت چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ چاند کا سفر پورن ماشی کی طرف جاری تھا۔ چاندنی کا ایک اپنا ہی مسحور کن سا تاثر ہوتا ہے۔ میٹھا میٹھا سا۔ کومل کومل سا۔ اپنے اندر ایک مدھرتا لئے۔ ہم رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی میں قرب مراد کے علاوہ چاندنی کا بھی لطف اٹھا رہے تھے اور یہ لطف کھانے کے خمار پر بھاری پڑ رہا تھا۔ ذہن رات کے حواس کی گرفت میں آزادی کی کروٹیں لے رہے تھے۔ مراد کی میٹھی اور مدھر آواز ہمیں اللہ کی صناعی اور اس کے انعامات کی طرف متوجہ کر رہی تھی۔

                ’’انسان اللہ تعالیٰ کے انعامات پر غور کر کے تو دیکھے۔ آپ اپنے جسم کو ہی لے لیں۔ اس کی روزانہ مرمت، ماہانہ دیکھ بھال، سالانہ اوور ہالنگ کا حساب لگائیں۔ سر کے باولوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک……جسم کے ایک ایک عضو کی بناوٹ کی قیمت کا تخمینہ تو چھوڑیں ایک طرف۔ وہ تو تب لگائیں جب آپ انہیں بنانے پر قادر ہوں……صرف ان عضا کی دیکھ بھال اور روٹین انسپکشن کے لئے ڈاکٹروں کی فیسوں اور اخراجات کے تخمینہ کا اندازہ کرنے کو میں نے حساب لگایا……دل کے سرجن، پھیپھڑوں کے ماہر، ہڈیوں کے معالج، خون کے مختلف ٹیسٹوں، گردوں اور دیگر اعضاء کی صفائی کی روزانہ فیس اور ان کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات کا اندازہ ایک کروڑ روپے روزانہ نکلا۔ کھانا، پینا، کپڑا، لتا، تعلیم و تربیت رہن سہن سب کچھ اس کے علاوہ۔ اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کبھی اللہ میاں مل جائیں تو انہیں خوب پیار کیا جائے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔