Topics

جانب گوجرانوالہ


                گوجرانوالہ تک سب خاموش ہی رہے۔ ممتاز علی، حاجی ادریس اور راقم پیچھے بیٹھے ڈرائیور کو گاڑی چلاتے دیکھتے رہے۔ حاجی ادریس کے ذہن میں کاکڑہ ٹاؤن کے انتظامات گزر رہے ہوں گے۔ وہ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہو گا، یہ نہیں کرنا کے چکر میں ہوں گے۔

                گوجرانوالہ میں ہم سید طاہر جلیل کے گھر رکے۔ طاہر بھائی مرشد کریم کو گھر کے اندر لے گئے اور ان کے چھوٹے بھائی ناصر ہمیں لے کر بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ چائے پی گئی۔ ناصر کی طبیعت میں بہت جلد گھل مل جانے کی عادت ہے۔ انہوں نے چائے کے دوران خوش گپیوں اور شگفتہ جملوں سے تواضح جاری رکھی۔ چند جملے ہم نے ممتاز علی کی طرف بھی لڑھکائے جو انہوں نے مسکرا کر جانے دیئے۔ وہ کم ہی کسی جملے بازی میں حصہ لیتے ہیں۔ مرشد کریم نے فون پر کراچی بات کی۔ گھر والوں کی خیریت دریافت کی، وہاں کے امور پر ہدایات دیں۔ مشن ہی کے کاموں کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک مثالی والد، ایک مثالی سربراہ اور ایک مثالی رشتہ دار بھی ہوں۔ رشتہ داریوں میں عموماً توازن رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ میں نے انہیں اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقرباء سے جس قدر مفاہمت آمیز برتاؤ کرتے دیکھا ہے، وہ انہیں کا حصہ ہے۔ مرشد کریم کی چھوٹی بیٹی کی شادی پر آپ کے بڑے بھائی جناب ادریس احمد انصاری صاحب آئے تو آپ انہیں ساتھ لے کر کھانا چیک کروانے لے گئے۔ وہاں جب آپ نے اپنے ہاتھوں سے فیرنی کا چمچ ان کے منہ کی طرف بڑھایا اور انہوں نے منہ کھول کر فیرنی کھا لی۔ اس وقت مجھے فضاؤں میں ہر طرف پیار ہی پیار برستا محسوس ہوا تھا۔ عمر کے اس حصے میں بھائیوں میں اتنا پیار……میں نے ایسا منظر پہلی بار دیکھا تھا۔ اس وقت وہ دونوں بزرگ مجھے اور چھوٹے چھوٹے معصوم سے بچے لگ رہے تھے۔ اتنی معصومیت، اتنا پیار۔ میری پلکیں نہ جانے کیوں بھیگ سی جاتی ہیں ایسے مناظر دیکھ کر۔

                گوجرانوالہ سے نکلے تو جی ٹی روڈ پر سفر جاری ہوا۔ اب ہماری منزل جہلم تھی۔ خاموشی سے سفر ہو رہا تھا۔ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب زبان کو قابو کر لیا جائے تو آنکھیں اور دیگر اعضاء مصروف گفتگو ہو جاتے ہیں۔ اگر انہیں بھی چپ کر لیا جائے تو بات چیت بندے کے اندر شروع ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی بات چیت کا زیادہ لطف سفر میں ہی آتا ہے۔ آدمی باتیں کرتے کرتے چپ ہو جاتا ہے اور گزرتے مناظر کو دیکھتے دیکھتے اپنے اندر خود سے باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مجھے ان باتوں میں زیادہ لطف اس لئے بھی آتا ہے کہ کوئی میری زبان نہیں پکڑتا۔ گرائمر یا اخلاق کی غلطی پر ٹوکتا نہیں۔ ٹوکتا ہے تو کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ یہ گفتگو کبھی کبھی بڑی علمی سی ہو جاتی ہے اور جب ایسا ہو جائے تو بڑے بڑے نکتے کھلتے ہیں اور اسرار سمجھ میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

                میرے مرشد کو یقیناً ان سب باتوں کا مجھ سے کہیں زیادہ ادراک اور تفہیم حاصل ہے لہٰذا وہ سفر کے دوران عموماً خاموش ہی رہتے ہیں۔ جب کبھی اس خاموش گفتگو میں کوئی ایسا مقام آ جائے جو الفاظ میں ڈھل کر آواز بن جائے اور ہم ان سے کوئی بات پوچھ لیں تو جواب میں ہماری سوچوں کی ساری اڑکیں نکال کر، انہیں کنگھی کر کے سنوار دینا، ان کو بہت خوب آتا ہے۔ بات کا جواب پا کر مجھے یوں لگتا ہے کسی نے میرے ذہن کو استری کر دیا ہو۔ اس کی ساری شکنیں، تمام سلوٹیں غائب ہو جاتی ہیں۔

                جب گوجرانوالہ سے نکلے تو سورج غروب ہونے کو تھا۔ سڑک کنارے کسی مدرسے کے بورڈ پر نظر پڑی اپنے درس و تدریس کے حوالے سے یادوں کا ایک سلسلہ آغاز ہو کر دراز ہوتا چلا گیا۔ 

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔