Topics
گاڑی رکی، دیکھا
نوشہرہ میں جی ٹی روڈ پر نعمت بھائی کی دکان کے سامنے کھڑے ہیں۔ نعمت صاحب ایک
صاحب دل، بہت روشن نظر انسان ہیں۔ مرشد کریم کو دیکھتے ہیں تو کن انکھیوں سے۔ نظریں
جھکی جھکی رہتی ہیں۔ مرشد کریم کے سامنے میں نے ان کے ہاتھ ادب سے بندھے ہوئے ہی دیکھے
ہیں۔ ہم پہنچے تو مرشد کریم دکان کے باہر لوہے کی کرسی پر بیٹھ چکے تھے اور نعمت
صاحب ہاتھ باندھے قریب کھڑے تھے۔ مجھے ایک سال پہلے کی بات یاد آ گئی۔ ہم مرشد کریم
کے ہمراہ پشاور سے پنڈی جا رہے تھے۔ پشاور سے نکلے اور نوشہرہ پہنچے تو سہ پہر کا
وقت تھا۔ نعمت بھائی سے مل کر گاڑی میں بیٹھے تو ایک فقیر سا آدمی آیا اور دونوں
ہاتھ پھیلا کر اس نے پشتو میں کچھ کہا۔ ہم سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اقبال قریشی
صاحب سے مرشد کریم نے پوچھا:
’’یہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
انہوں نے اس بھکاری کو جانتے ہوئے جیب سے کچھ پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔
اس نے دہائی دینے کے انداز میں کہا:
’’مجھے پیسے نہیں اجازت چاہئے۔ الحمد کی اجازت۔‘‘
قریشی صاحب نے ترجمہ کر کے بتایا کہ حضور یہ کہہ رہا ہے۔ مرشد کریم نے عجیب
طرح سے بائیں ہاتھ کو ہلا کر کچھ اشارہ کیا اور کہا:
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘
اس شخص نے دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھا کر منہ سے تشکر کے الفاظ ادا کئے۔
مرشد کریم نے گاڑی بڑھانے کا اشارہ کیا۔ ہمارے سینوں میں سوال مچلتے ہی رہ گئے۔ یہ
کون تھا؟ وہ کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے کس چیز کی اجازت مانگی؟ وہ اتنے لوگوں کو چھوڑ
کر سیدھا مرشد کریم ہی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کیسے پہنچ گیا؟ کیا اس کو پتہ
تھا کہ آپ کون ہیں؟ اس کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ اس وقت ادھر سے گزریں گے؟ ہم
پنڈی پہنچ گئے مگر اس دوران نہ کوئی بات ہوئی اور نہ کوئی جرأت ہی کر سکا۔ اب بھی
اقبال قریشی صاحب اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اسی بندے کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ
رہے تھے پھر ہم نے اس شخص کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔
نوشہرہ میں نعمت بھائی نے ہماری تواضع کو ہم سب کو بوتلیں پلائیں۔ نوشہرہ سے چلے
تو پشاور تک میں یہی سوچتا رہا۔ اگلی گاڑی میں مرشد کریم نیاز بھائی اور دوسرے
بھائیوں سے کیا کہہ رہے ہونگے۔ کچھ کہہ بھی رہے ہوں گے یا نہیں۔ یہی سوچتے سوچتے
ہم پشاور پہنچ گئے۔ پشاور میں قلعہ بالا حصار کی تاریخی عمارت کے پہلو میں لیڈی ریڈنگ
ہسپتال کے سامنے فورٹ گرڈ سٹیشن کے اندر مراقبہ ہال کی نو تعمیر شدہ عمارت پشاور
کے بھائیوں کی محنت اور خلوص کی علامت بنی، اپنے اصل ڈیزائنر اپنے اصل تخلیق کار کی
منتظر تھی۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔