Topics

اللہ پر یقین ہو تو جادو اثر نہیں کرتا


                پکنک کے لئے قافلہ تیار ہوا۔ چار پانچ گاڑیوں میں سے مجھے اور ممتاز بھائی کو اسی گاڑی میں جگہ دی گئی جس میں مرشد کریم تشریف فرما تھے۔ میں نے احساس تشکر اور ممنونیت سے حاجی صاحب کو دیکھا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے میرا ہاتھ دبایا اور کہا:

                ’’مرشد کریم ایسا ہی چاہتے ہوں گے۔ تبھی ایسا ہوا ورنہ ایسا نہ ہوتا۔‘‘

                میرے مراد نے ایسا چاہا اس لئے ایسا ہو رہا ہے۔ میرے روئیں روئیں سے کرنٹ گزر گیا۔ یا اللہ تیرا شکر کہ تو نے مجھے اس بندے کی نسبت عطا فرما دی، جس کی خوشنودی کے لئے کام کرنا مجھ ایسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ میرے مراد نے اپنی بے پایاں شفقت کا ایک بار مزید اظہار کرتے ہوئے مجھے اپنے قرب سے سرفراز کیا تھا۔

                گاڑی میں بیٹھنے لگے تو حاجی صاحب نے جادو ٹونے کی بابت کچھ دریافت کیا اس پر فرمایا:

                ’’ہمیں اللہ پر یقین ہو تو کوئی جادو اثر نہیں کر سکتا۔ یہ سب زبانی جمع خرچ ہے۔ جادو کرنے والا سو پچاس روپے لے کر آپ کے لئے جادو کرے تو بھلا وہ اپنے لئے ایک آدھ نوٹ کیوں نہیں چھاپ لیتا؟ پہلی بات تو یہی ہے کہ کوئی جادو ہوتا ہی نہیں اور اگر ہوتا ہے تو صرف اس صورت میں جب کوئی واقعی جادو گر ہو اور پھر جادو کا کوئی ٹیسٹ بھی تو نہیں کہ واقعی جادو ہوا بھی یا نہیں۔ پہلے عورتیں جادو کا شکار ہوا کرتی تھیں اور آج کل ہمارے یہاں مرد زیادہ آتے ہیں، جی ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔‘‘

                پھر فرمایا:

                ’’اللہ انسان کی مرمت اور دیکھ بھال پر 92لاکھ روپے یعنی تقریباً ایک کروڑ روپے روزانہ خرچ کرتا ہے۔ جو اللہ آپ پر ایک کروڑ روپے روزانہ خرچ کرتا ہے اس سے دو چار ہزار روپے کی نوکری مانگنا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘

                حاجی صاحب نے کسی صاحب کی تعریف کی تواس پر فرمایا:

                ’’حضور قلندر بابا اولیاء نے بھی مجھے کیسے کیسے بندے سیلکٹ کر کے دیئے ہیں۔‘‘

                میں نے اس سلیکشن کی وضاحت چاہی تو فرمایا:

                ’’سلیکشن تو اوپر سے ہی ہوتا ہے۔ جب سلیکشن ہو جاتا ہے تو پھر بندے میں ویسی ہی صلاحیتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جس کام کے لئے اس کا سلیکشن ہوا ہوتا ہے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔