Topics
مجھ سے پشاور سے کراچی
پرواز کی بابت دریافت کیا کہ اس کا انتظام ہو گیا ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ
ابھی پوچھ کر آتا ہوں۔ میں نے پشاور ٹیلی فون کر کے زبیر عزیز صاحب سے ٹکٹ کی
بابت پوچھا:
انہوں نے بتایا کہ فلاں تاریخ میں ایروایشیاء پر حضور کے لئے سیٹ بک ہو گئی
ہے۔ ممتاز علی صاحب ان کے ہمراہ جائیں گے۔ میں نے واپس آ کر عرض کی:
’’حضور آپ کی اور ممتاز بھائی کی سیٹیں بک ہو گئی ہیں۔‘‘
آپ نے پوچھا:’’کس تاریخ کو؟‘‘
میں نے تاریخ عرض کی۔ دریافت کیا:
’’کس وقت؟‘‘
اور اب یہ عجیب سی بات ہے کہ مجھے نہ تو پوچھنا یاد رہا تھا اور نہ ہی یہ یاد
آ رہا تھا کہ ایرو ایشیاء کی پرواز کس وقت ہوتی ہے حالانکہ میں خود اس پرواز سے
کئی بار کراچی جا چکا تھا۔ صبح گیارہ بجے تھی یا سہ پہر چار بجے۔ بہت زور دینے پر
بھی جب یاد نہ کر سکا تو بے بسی سے مرشد کریم کی طرف دیکھا۔ وہاں ایک سکون آمیز
مسکراہٹ کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ عرض کی:
’’حضور خیال ہی نہیں آیا کہ یہ بھی پوچھنا چاہئے تھا۔‘‘
فرمایا:’’موت دھیان سے اتر رہی ہے؟‘‘
میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہوا تو فرمایا:
’’اگر پتہ چلے کہ دس روز بعد مرنا ہے تو ذہن میں آتا ہے کہ ابھی کیوں نہ مر جائیں۔‘‘
ایک طرح سے یہ بھی یکسوئی ہی ہوئی، میں نے خود کو تسلی دی۔
شام کو روزگارڈن اسلام آباد گئے۔ قاضی صاحب نے وہاں پکنک نما پارٹی کا اہتمام
کیا ہوا تھا۔ راولپنڈی کے بھائیوں نے مراقبہ ہال کے لئے زمین خریدی تھی۔ یہ پکنک
پارٹی اسی خوشی میں تھی۔ وہاں ادھر ادھر گھومتے اور روشوں کے کناروں پر لگے پھولوں
کو سراہتے رہے۔ فوارے کے گرد کھڑے ہو کر اس کے پانی کو اوپر سے نیچے آتا دیکھتے
رہے۔ پارک میں بنے راستوں پہ لگی سیمنٹ کی اینٹوں کو محسوس کئے بغیر ان پر چلتے
پھرتے سرسبز گھاس کے وسیع قطعات سے لطف اندوز ہوتے سب بہن بھائی مرشد کریم کے گرد
جمع تھے۔
پارک میں پھولوں کے ایک کنج کے پاس ایک دری بچھا دی گئی۔ دری پہ میرا مراد
رونق افروز ہوا۔ پھولوں کی خوشبو کا احساس فضا میں بکھرا ہوا تھا۔ کنج میں گلاب ہی
گلاب تھے۔ کسی نے تکیہ لا کر دیا کہ اس کے ساتھ ٹیک لگا لیں۔
فرمایا:’’لوگ فقیر کو نہ جانے تکیہ کیوں دیتے ہیں۔‘‘
پھر نہایت بھولپن کے انداز میں کہا:
’’شاید لوگ دیکھ نہیں سکتے کہ یہ اللہ کے سہارے کیوں بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
پارک کی وسعت، پارک کی بناوٹ، وہاں لگے درختوں پر تبصروں سے ہوتے ہوئے بات پنڈی
مراقبہ ہال کی زمین پر آن پہنچی۔ مرشد کریم نے زمین کی بابت پوچھا۔ ارد گرد کے
لوگوں کی بابت دریافت کیا۔ پانی، بجلی، سڑک کی بابت پوچھ کر قیمت وغیرہ کی بات کی
اور پھر جیب سے کچھ رقم شاید پانچ ہزار روپے نکال کر قاضی صاحب کو دیئے کہ یہ میری
طرف سے زمین کے لئے۔ قاضی صاحب نے رقم محمد بوٹا صاحب کو دی کہ یہ سارا انتظام انہی
کے سپرد تھا۔ وہاں موجود بہن بھائیوں نے حسب استطاعت حصہ لینا شروع کیا کچھ نے
وعدہ کیا اور کچھ نے حصہ لینے کا اعلان۔ مٹھاس بٹی، پکنک کا آغاز ہوا۔
مرشد کریم نے یہ دیکھ کر کہ لوگ پارک میں آ کر بھی پارک کو نہیں دیکھ رہے تو
انہیں حکماً پارک دیکھنے کا کہا۔
’’آپ مجھے چھوڑ کر ادھر ادھر بھی دیکھیں، گھومیں پھریں۔ یکدم سب ہٹ گئے۔ ہٹنے
کے باوجود سب کی توجہ کا مرکز مرشد کریم ہی تھے۔ ایک جگہ جمگٹھا کئے ہوئے لوگ قدرے
بکھر گئے مگر دور سے دیکھنے پر صاف معلوم ہوتا تھا کہ سب کس مرکز سے بندھے ہوئے ہیں۔
گھیرا ٹوٹا نہیں، بکھرا بھی نہیں فقط کھل گیا تھا۔
بچوں کے دل پسند مشروب کوک اور پیپسی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ساتھ میں چپس۔ یہ
تو مزے ہی آ گئے۔ بچے تو کھل ہی اٹھے اور بچوں کو خوش دیکھ کر وہاں سب ہی کا سرور
اور لطف دوبالا ہوتا چلا گیا۔ مرشد کریم اٹھ کر ادھر ادھر گھومتے رہے پھر ایک بنچ
پر آ کر بیٹھ گئے۔ بنچ پر بیٹھے سب کو دیکھ رہے تھے کہ ایک بچے نے آ کر کوئی
سوال کیا۔ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ جو بھی حرکت شروع ہوتی ہے اس کا
کوئی نہ کوئی انجام بھی ہوتا ہے۔ دنیا کا آغاز اللہ تعالیٰ نے کن کہہ کر کیا یعنی
جب کن کہا تو دنیا شروع ہو گئی اور اب جب اللہ تعالیٰ’’ابد‘‘ کہیں گے تو دنیا ختم
ہو جائے گی اور ہم سب جہاں سے آئے تھے وہیں واپس چلے جائیں گے۔ ابد کے بعد
ابدالاباد میں منتقل ہو جائیں گے اور یہ ہمیشگی کی کیفیت ہے۔ اللہ کے کن کہنے سے
پہلے جیسی کیفیت جب سوائے اللہ کے اور کچھ نہیں باقی رہے گا۔ مرشد کو گفتگو کرتے دیکھ
کر سب قریب کھسک آئے۔ بچے کی والدہ نے بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ اکثر کوئی نہ
کوئی بات ایسی پوچھ لیتا ہے کہ وہ اس کی باتوں کا جواب دے نہیں پاتیں۔ ماشاء اللہ
بہت ذہین اور پیارا سا بچہ تھا۔ حضور نے اس کی والدہ کو مشورہ دیا کہ وہ بچے کو
رات سونے سے پیشتر مراقبہ کرنے دیا کریں لیکن صرف پانچ دس منٹ اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ
اس سے بچے کی دلچسپی اندر کی دنیا کی طرف بڑھ جائے گی اور اندر کی دنیا تو اتنی
خوبصورت ہے کہ اس کے مقابلے میں باہر کی دنیا کی طرف توجہ دینا دوبھر لگتا ہے۔
رات کے کھانے کا اہتمام بھی وہیں پارک میں کیا گیا تھا۔ پکا ہوا کھانا لایا گیا۔
اسے گرم کیا گیا۔ رات کا سماں، کھلی فضا، آبادی کے اثرات سے دور پارک میں چلتے
پھرتے لوگ، اندھیرے اور روشنیوں کے سنگم پہ قرب مراد سے سرشار روحیں، ماحول میں ایک
دھیما پن، مرشد کریم کی قربت کا احساس، لگتا تھا کہ ہم سب کسی اور ہی عالم میں ہیں۔
میں نے کھانے کے بعد ادھر ادھر دیکھا۔ حیرت ہوئی جس جگہ اتنے لوگوں کا ہجوم ہو
وہاں آنے والوں کے قیام کے اثرات بکھری ہوئی اشیائ، لفافوں اور کاغذوں کی صورت دیکھنے
میں آتے ہیں مگر وہاں ایسا کوئی نشان نہ تھا۔ سب نے پارک کی صفائی اور حسن کے
احترام میں چھلکوں اور کاغذوں کو ادھر ادھر پھیلانے سے پرہیز کر کے اپنے تہذیب پذیر
ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔