Topics
وہ لوگ جنہیں گفتگو کا بہت ملکہ حاصل ہو جب بات کرتے ہیں تو ذہن متحرک ہو کر
تصویر کشی میں مصروف ہو جاتا ہے لیکن جب فقیر بات کرتا ہے تو موضوع کے حوالے سے
تمام تاثرات زندہ اور احساسات متحرک ہو جاتے ہیں۔ ذہن صرف تصویر ہی نہیں دیکھتا
تصویر سے متعلق ماحول میں اتر جاتا ہے۔ کی جانے والی گفتگو کی کیفیات ذہن پر وار
دہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ اسی لئے فقیروں اور قلندروں کی گفتگو کی کیفیات عام آدمی کی
گفتار سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ انہیں سن کر بندہ سنتا ہی نہیں دیکھتا اور محسوس بھی
کرتا ہے۔ جونہی میرے مراد نے فرمایا’’کبھی اللہ میاں مل جائیں تو انہیں خوب پیار کیا
جائے۔‘‘ ہمارے ذہنوں میں پیار ہی پیار بھر گیا۔ من مندر میں پیار کی جوت جھلملائی۔
پیار نے مجسم ہو کر انگڑائی لی اور باہیں لمبی کر کے انہیں اللہ کی طرف دراز کر دیا۔
میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے سوال کیا ’’تو کیا پیار کرنا شکر ہوا؟‘‘
فرمایا!’’جی ہاں……قرب
ہوا۔‘‘
اور بتانے لگے ’’حضور قلندر بابا اولیاءکو اللہ تعالیٰ سے اس قدر قربت حاصل تھی
جیسی بے تکلف دوستوں میں ہوتی ہے۔‘‘ اور پھر بات کا سرا وہیں سے جوڑتے ہوئے فرمایا۔
’’بندے پر کوئی احسان کر دے تو وہ ساری عمر نہیں بھولتا۔ لیکن اس کے باوجود ہم
اللہ ہی کا شکر نہیں کرتے۔‘‘
رات کے اس سناٹے میں جب میرا مراد بولتے بولتے خاموش ہوا تو میرے اندر ایک
آواز گونجی:
’’ہم اللہ کے انعامات
کو احسان مانتے ہی کب ہیں۔ احسان مان لیں تو مرتبہ احسان ہی حاصل نہ ہو جائے‘‘
مرتبہ احسان کی اپنے
اندر سے ابھرتی اس توجیہہ کو سن کر میں نے چونک کر اپنے مراد کی طرف دیکھا۔ وہ اسی
قلندرانہ بے نیازی سے جھومتے جھامتے خوشیوں کو اپنے جلو میں لئے بڑھتے چلے جا رہے
تھے۔ میں نے جذبہ احسان مندی کو عقیدت میں ڈھل کر اپنے مراد کے قدموں سے لپٹتے دیکھا۔
اس عقیدت کی تشریح کرتے ہوئے ایک بار میرے مراد نے کہا تھا۔
’’اللہ تعالیٰ دنیا کو
چلانے کے لئے درکار سٹم کے تحت حاکموں اور بادشاہوں کے لئے لوگوں کے دلوں میں رعب،
علم والوں کے لئے احترام اور روحانی لوگوں کے لئے عقیدت ڈال دیتے ہیں اور پھر یہ
جانتے ہوئے کہ قرب کے خمار کے زیر اثر احترام اور عقیدت میں تمیز نہیں کر پا رہا۔
فرمایا ’’احترام میں
اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن عقیدت میں نہیں‘‘۔
مرید نے سوچا شاید اس
لئے کہ روحانی لوگوں میں حقیقت آشنائی ہوتی ہے اور حقیقت صرف ایک ہی ہوا کرتی ہے
دو تین یا ہزاروں نہیں۔
سیر کرتے ہوئے جونہی پلٹے ہمارے پیچھے پیچھے آنے والی ایک ٹولی ہمارے سامنے
آ گئی۔ میرے مراد نے سوالیہ انداز میں ان کو دیکھا۔ ایک صاحب نے تعارف کرایا۔ یہ
حبیب صاحب ہیں اور یہ……قدرے خاموش رہی۔ جیسے حافظے میں نام ٹٹول رہے ہوں……پھر کہا
اور یہ سمیع اللہ۔ پشاور سے……‘‘
میرے مراد نے کہا۔’’میں تو سمجھا تھا کہ آپ کہیں گے اور یہ محبوب ہیں بھئی حبیب
کے ساتھ تو محبوب ہی ہونا چاہئے۔‘‘ بذلہ سنجی میں لطافت اور ندرت کی ادا کوئی ان
سے سیکھے۔ ایک بار ایک صاحب نے بات کہنے کو کہا۔
’’آج کل بل بہت آتے ہیں۔‘‘
فرمایا ’’آپ تو بلوں
میں رہتے ہیں۔‘‘
میرے مراد کا تواضح
کرنے کا اور اپنے بچوں میں بہتر طرز فکر ابھارنے کا یہ انداز نہ صرف دلنشیں ہے
بلکہ انتہائی موثر بھی۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔