Topics

سترہ دنوں کا روزہ


                اپنی تربیت کے ایک مرحلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

                ’’حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھے سترہ دنوں کا روزہ رکھوایا۔ اس دوران چینی کے بغیر چائے یا کافی کے علاوہ اور کچھ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جب میری والدہ نے مجھے دیکھا تو میری کمزوری دیکھ کر وہ بہت ناراض ہوئیں اور حضور قلندر بابا اولیاء سے خفا ہو گئیں کہ انہوں نے ان کے بچے پر ظلم کیا۔‘‘

                ’’حضور کوئی کام کہتے تھے تو ساتھ میں تصرف بھی فرماتے تھے کیونکہ میں نے دیکھا کہ اگر انہوں نے کہا کہ روزہ رکھو تو بھوک ہونے کے باوجود کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بھوک میں جو کیفیت ہوتی ہے، وہ سب ہوتی تھی مگر پھر بھی کھانا کھانے کی طلب نہیں ہوتی تھی۔‘‘

                ’’آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ بھوک کی اپنی ایک لذت ہوتی ہے۔ روزوں کے بعد یہ لذت باقاعدہ یاد آتی ہے۔ ان دنوں مجھے یہ دیواریں پتلے کاغذ کی مانند نظر آتی تھیں۔ چھت بھی ایسے ہی نظر آتی تھی جیسے کاغذ کی بنی ہوئی ہو اور باہر کے عکس ان پر پڑ رہے ہوں۔ اسی دوران پھر حضور نے اس کیفیت سے گزارا کہ میں دیکھتا کہ ایک کمرہ ہے۔ اس میں الماریوں میں سونا بھرا ہوا ہے۔ میں اس کمرے میں بند ہوں۔ بھوک میں آواز آئی، سونا کھاؤ۔ پھر دیکھا کہ ایک کمرہ ہے اس میں چاندی بھری ہوئی ہے۔ بھوک محسوس ہوتی تو آواز آتی، چاندی کھاؤ۔ اسی طرح یہ دکھایا کہ ایک کمرہ میں نوٹ ہی نوٹ بھرے ہیں، آواز آتی نوٹ کھاؤ نوٹ۔‘‘

                ’’جب روزہ مکمل ہو گیا تو آنتیں خشک ہو گئی تھیں۔ مجھے پہلے روغن بادام گرم دودھ میں ڈال کر دیا گیا۔ پھر دودھ کے ساتھ نرم غذائیں دی جانے لگیں اور اس طرح رفتہ رفتہ واپس اس خوراک پر ڈالا گیا۔ اس سے لطافت اتنی بڑھ گئی کہ نوٹ دیکھ کر گھن آتی۔‘‘

                ’’لوگ بغیر دیکھے اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں تو میں نے اپنے خاندان والوں سے کہا کہ میں دیکھ لینے کے بعد کیسے پھر جاؤں؟‘‘

                فرمایا:’’حضور قلندر بابا اولیاء نے میری بڑی کڑی نگرانی کی۔ میری تربیت کے مراحل میں میرے ساتھ خود بھی سختی جھیلی۔ حضور نے میری تربیت لاشعوری طور پر کی اور میرے لاشعور کی تربیت کی۔ اب سلسلے میں جن کی تربیت کی جاتی ہے ان کے شعور پر ضرب لا کر اس کو لاشعور سے جوڑا جاتا ہے۔‘‘

                اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تربیت میں وہ سخت مراحل، جن سے مرشد کریم خود گزرے، ان کے مریدوں کو اتنی شدت سے درپیش نہ ہونگے۔ ان کو انہی مراحل سے ان کے ذہن کی سکت کے مطابق گزار دیا جائے گا جن سے مرشد کو گزارا گیا تھا۔ شاید اس لئے کہ ان کے مریدوں کو کونسا لاکھوں انسانوں کو تربیت دینا ہو گی۔ ان کو تو لاکھوں افراد کے قافلے کو اپنے ساتھ لے کر میر کارواں کی طرح انفس و آفاق کی گھاٹیوں سے گزارنا اور دشت زیست کی چیرہ دستیوں سے بچانا تھا۔ اس لئے ان کی تربیت کی نہج ہی کچھ اور انداز کی تھی۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔