Topics
ایک مسجد کے پاس گاڑی رکوا کر حضور نے وضو تازہ فرمایا۔ قصر نماز عصر ادا کی۔
مسجد میں خوب دبیز قالین بچھے دیکھ کر تعریفی انداز میں سر ہلایا۔ جتنی دیر حضور
نماز ادا کرتے رہے، ایک بھائی قالین پر لیٹے، مرشد کریم کو نماز ادا کرتے دیکھتے
رہے۔ پوچھا کہ آپ نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اگر نہیں پڑھنا تھی تو مسجد میں آئے ہی
کیوں؟
کہا:’’مسجد تو میں مرشد کی تقلید میں آ گیا۔ میرے کپڑوں نے مجھے نماز کی ادائیگی
سے روک دیا۔ دراصل میرے کپڑے صاف نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ جس شرارت سے مسکرائے مجھے یوں لگا کہ انہوں نے نظام نماز پر طنز
کی ہو۔
مسجد سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے تو ممتاز علی صاحب نے مسجد پر لگے ایک بورڈ کی
جانب متوجہ کیا۔ اس پر کسی مسلک کا نام لکھا ہوا تھا کہ اس مسجد میں فلاں فلاں فقہ
کے مطابق نماز ہوتی ہے اور قرآن کی تعلیمات بھی اسی مسلک کے مطابق دی جاتی ہیں۔
بورڈ کی عبارت کی طرف توجہ دلانے کا مقصد یہی رہا ہو گا کہ اس قسم کی چھوٹی موٹی
ہر بات پر بھی مرشد کریم کی رائے لے لی جائے۔ خانقاہی نظام تعلیم میں مراد اپنے مریدین
کو اپنا ذہن اپنی طرز فکر منتقل کرتا ہے۔ اس ذہن اور طرز فکر کی منتقلی سے بنیادی
طور پر مرید کے اندر سوچ بچار اور غور و فکر کا ایک ایسا انداز راسخ کرنا مقصود
ہوتا ہے جو انبیاء کی طرز فکر سے مطابقت رکھتا ہو۔ اب انبیاء کی طرز فکر کے بارے میں
بتانا کہ درحقیقت انبیاء کی طرز فکر ایسی تھی، ظاہر ہے کسی بہت ہی عالم و فاضل
بندے کا کام ہے۔ لیکن یہ سکھانا کہ انبیاء اس طرح اس طرز سے سوچتے تھے اور آپ اپنی
طرز فکر کو ان کی طرز فکر سے اس طریقے سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ
یہ کام محض عالم اور فاضل ہونے سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے سکھانے کے آداب سے
واقفیت کی حامل شخصیت بھی درکار ہوتی ہے اور پھر اس وقت کیسی شخصیت درکار ہو گی جب
بات منتقلی ذہن تک آ جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ یہ کام وہی بندہ کر سکتا ہے جس کو یہ
معلوم ہو کہ انبیاء کا طرز فکر کیا تھا اور نہ صرف یہ کہ معلوم ہو بلکہ خود اس کا
ذہن ان کی طرز فکر کے مطابق ڈھلا ہوا، ترشا ہوا اور بنا ہوا ہو اور وہ دوسروں کے
ذہن کو بھی اسی پیٹرن پر ڈھال سکے، تراش سکے اور بنا سکے۔
ممتاز علی کے توجہ دلانے پر میں نے نماز اور قرآن کا بھی ایک نظام فقہ کے
مطابق ہونے کی بات کو اس محدود طرز فکر کی علامت سمجھ کر لطف لیا۔ جہاں ہم نے اپنی زندگیوں کو قرآن کے مطابق ڈھالنے کے
بجائے قرآن اور نماز کو اپنی طرز فکر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بات وہی
ترتیب کے الٹ پھیر کی ہے۔ یہ الٹ پھیر سیدھا ہو جائے، اعمال و افعال میں ترتیب آ
جائے تو زندگی میں ہر طرف حسن اور توازن آ جاتا ہے۔ یہ حسن جس قدر بڑھتا ہے اسی
قدر اس میں پائیداری آتی چلی جاتی ہے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ یہ لافانی اور امر
ہو جاتا ہے۔
میرے مراد نے اس قسم کی کوئی ناصحانہ تقریر نہیں کی۔ انہوں نے اس پر طنز بھی
نہیں کی۔ اس کو برا بھلا بھی نہیں کہا بلکہ ہماری توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی
کہ
’’آپ دیکھیں کہ اس دور افتادہ مقام پر بھی اس قسم کی باتیں اپنا اثر جمائے ہوئے
ہیں۔‘‘
بے شک جہالت کو پھیلانے کی تو کشش بھی نہیں کرنا پڑتی وہ تو خود رو ہوتی ہے
اور پھر فرمایا:
’’ایک بار میں انگلینڈ گیا۔ وہاں مجھے جس ہال میں تقریر کرنا تھی وہاں قریب قریب
ہر طبقہ فکر اور مسلک کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ہال میں تین سو افراد کے لئے گنجائش
تھی اور وہاں پر کوئی ساڑھے تین سو افراد تھے۔ کافی لوگ کھڑے ہو کر تقریر سن رہے
تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر کہ ہر مسلک کے لوگ ہیں کہا:
’’کتنا اچھا ہو کہ اگر ہم خود کو بریلوی اور دیوبندی وغیرہ کہنے کی بجائے مکی
اور مدنی کہنا اور کہلوانا شروع کر دیں۔ جب ہمارا قرآن ایک، دین ایک، رسولﷺ ایک،
نماز ایک ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم خود کو ہندوستانی شہروں کے ناموں سے منسوب
کریں۔ اس سے بہتر ہے کہ ہم مکی اور مدنی کی نسبت اپنائیں تا کہ ہمیں ویسے ہی انوار
بھی منتقل ہوں۔‘‘
فرمایا:’’میرے یہ کہنے کی دیر تھی، ہال خالی ہو گیا، اختلافات مٹانے اور اتفاق
اور یگانگت پیدا کرنے کی بات سننا تک گوارا نہیں تھا ان کو۔ دو منٹ کے بعد ہی سارا
ہال خالی دیکھ کر میں بہت حیران ہوا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اچانک ہوا کیا۔ پھر
بعد میں سمجھ میں آیا کہ یہ وجہ ہوئی کہ میں اخوت اور یکجہتی کی بات کر بیٹھا۔‘‘
ہم ایک سناٹے کے عالم میں یہ بات سن رہے تھے اور یہ سن کر تو اور بھی سناٹے میں
آگئے۔ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘ کا پیغام
سربلند کرنے والے کے تجربات ضروری تو نہیں کہ جان فزاء ہی ہوں۔ اکثر روح فرسا بھی
ہوتے ہیں مگر خوش کن بات یہ ہے کہ جو جتنے زیادہ روح فرسا لمحوں کو برداشت کرتا ہے
ان کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا، ان سے شکست تسلیم نہیں کرتا، وہی کامیاب رہتا
ہے۔
ایک بار میں نے اپنے مراد کے سامنے ان کے لئے دعا کرنے کی جسارت کی۔ مجھ بے
ڈھب بندے کو بات کرنا تک تو آتی نہیں۔ اکثر تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کیا
کہنا چاہئے تھا اور کیا کہہ گیا ہوں۔ میں نے کہہ دیا۔’’اللہ آپ کو کامیاب کریں۔‘‘
بہت ہی شفقت سے مجھے ڈھب پر لانے اور آئندہ ایسی بے تکی ہانکنے سے باز رکھنے کو
فرمایا:
’’جب میں پہلی بار لندن جا رہا تھا تو جانے سے پہلے میری ملاقات عبیداللہ درانی
صاحبؒ سے ہوئی، میں نے مشن کے کام کے حوالے سے ان سے کامیابی کی دعا کے لئے کہا۔
اس پر انہوں نے کہا:
’’دعا تو وہاں کی جاتی ہے جہاں کامیابی کا یقین نہ ہو، آپ کے لئے تو میں کامیابی
لکھی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ بھئی! آپ تو سورج ہیں نام کے بھی اور کام کے بھی۔‘‘
فرمایا:’’میری دادی اماں بھی یہی کہا کرتی تھیں، ’’تُو تو میرا سورج ہے۔‘‘
میرے مراد کی یہ ادا ایسی ہے کہ وہ بات اتنی معصومیت سے کہتے ہیں جو آدمی کو
مجبور کر کے رکھ دیتی ہے کہ وہ ان سے پیار کرے۔ گاڑی میں بھی مراقب رہنے کو اپنی
عادت یا کاموں کی ضرورت قرار دینے کے بجائے اس کا نہایت بے ضرر اور معصومانہ سا
عذر دیتے ہوئے فرمایا:
’’گاڑی چلتی ہے تو مجھے نیند آ جاتی ہے۔‘‘
ان کے مرید کو ان کی بات ماننے میں تو کوئی تامل نہ تھا مگر سوچ نے سوال
پوچھنے پر ابھارا۔
’’حضور! گاڑی کے چلنے پر نیند کیوں آتی ہے؟‘‘
فرمایا:’’گاڑی چلتی ہے تو نیچے اوپر کی حرکت سے جھولے کا اثر پیدا ہوتا ہے۔
جھولے کی حرکت سے آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچوں کو نیند آ جاتی ہے اور بھئی میں بھی
تو ایک بچہ ہی ہوں نا، مجھے بھی نیند آ جاتی ہے۔‘‘
مرید کے اندر تشکیک کا ناسور بہت پھیلا ہوا تھا، اس نے ہچکچاتے ہوئے عرض کی:
’’حضور! جھولا تو اوپر نیچے ہوتا ہے لیکن یہ گاڑی تو سیدھی چلتی ہے اس میں اوپر
نیچے کی نسبت آگے کی حرکت زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
کہا:’’جی ہاں یہ سارا کھیل ہی سپیڈ کا ہے۔ جوں جوں سپیڈ بڑھتی ہے کشش ثقل ٹوٹتی
چلی جاتی ہے۔ دو سو میل کی رفتار پر تو کشش ثقل بالکل ہی بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے،
گاڑی کی رفتار کے زیر اثر کشش ثقل کے ختم ہونے سے ہلکا پن پیدا ہوتا ہے تو ذہن ثقل
سے آزاد ہونے پر اوپر اٹھتا ہے اور بندے کو نیند آ لیتی ہے۔‘‘
یعنی گاڑی کے سیدھے چلنے سے ذہن پر اوپر نیچے ہونے کا جو تاثر مرتب ہوتا ہے وہ
ظاہر بین نظروں کو بھلا کیونکہ نظر آ سکتا تھا اور ادھر میرے مراد نے اس قدر سادہ
اور سلیس انداز میں اس مشکل گتھی کو سلجھا دیا کہ ذہن میں سکون ہی سکون پھیل گیا۔
اب کوئی سوال نہیں اٹھ رہا تھا۔ ہم خود بھی گاڑی کے جھولے لینے میں منہمک ہو گئے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔