Topics

کاکڑہ ٹاؤن کی جامع مسجد میں"روحانیت" خطاب


                ہم نماز جمعہ کے لئے کاکڑہ ٹاؤن کی جامع مسجد گئے۔ راستے میں حاجی ادریس صاحب حضور کو بتا رہے تھے کہ وہاں کے مولوی صاحب ان سے نظریاتی طور پر اختلاف رکھتے ہیں اور ان کی تکذیب تک کرنے سے نہیں چوکتے۔ مراقبہ ہال سے مسجد تک ایک ڈیڑھ فرلانگ کا فاصلہ ہو گا۔ مولوی صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ مسجد میں داخل ہوئے تو حضور نے سنتیں ادا کیں اور اپنے مخصوص انداز میں نماز کے لئے جماعت کے کھڑے ہونے کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب خطبہ سے پہلے وعظ کر رہے تھے۔ وعظ ختم کرنے سے پیشتر انہوں نے اعلان کیا کہ:

                ’’ معروف روحانی سکالر جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کراچی سے کاکڑہ ٹاؤن تشریف لائے ہیں اور بعد از نماز عصر وہ مراقبہ ہال کاکڑہ ٹاؤن میں روحانیت کے موضوع پر خطاب کریں گے۔ لوگوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔‘‘

                یہ اعلان شاید وہ لکھا ہوا پڑھ رہے تھے۔ اعلان پڑھنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ یہ کیا کر بیٹھے ہیں۔ اس پر انہوں نے اتنا ہی کہا کہ لوگ بے شک وہاں جائیں اور بات کو سوچ سمجھ کر سنیں۔ پھر خطبہ پڑھا، دو رکعات نماز فرض پڑھ کر میں نے دائیں طرف دیکھا۔ دیکھا کہ مرشد کریم مسجد سے باہر جا رہے ہیں اور ان کے ہمراہ حاجی ادریس صاحب بھی ہیں۔ میں نے تیزی سے اس طرف دوڑنے کا ارادہ کیا جدھر میرے جوتے پڑے تھے کہ ممتاز بھائی نے مجھے اشارہ کیا کہ آپ مرشد کے ہمراہ جائیں، میں آپ کا جوتا بھی لے کر آ جاتا ہوں۔ میں تیزی سے اپنے مراد کے لئے دوڑا۔ جب مسجد کے گیٹ پر پہنچا تو مرشد کریم مسجد کی سیڑھیاں اتر کر چند قدم آگے جا چکے تھے، میں نے تیزی سے سیڑھیاں اتر کر کچی زمین پر پاؤں رکھا۔ ابھی ایک دو قدم ہی لئے تھے کہ حضور پلٹے اور فرمایا:

                ’’بھئی! آپ کے جوتے کہاں ہیں؟‘‘

                میں تو جیسے سن ہو کر وہیں جم کر رہ گیا۔ جس حالت میں تھا وہیں Freezeہو گیا۔ منہ سے فقط اتنا نکلا:

                ’’آ رہے ہیں۔ وہ ممتاز بھائی لا رہے ہیں۔‘‘

                اب ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ممتاز بھائی آئیں، میرا مراد میرے ہمراہ انتظار کر رہا ہے۔ حاجی صاحب نے کہا:

                ’’حضور! یہ تو کمال ہو گیا۔‘‘

                میرے مراد نے ان کی طرف دیکھا کہ ان کا اشارہ کس کمال کی طرف ہے۔ انہوں نے مولوی صاحب کے اعلان کا تذکرہ کیا۔ وہاں وہی پر سکون مسکراہٹ لبوں پر سجائے بات سنی گئی۔

                ’’یہ مولوی صاحب بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘

                کہاں حاجی صاحب کا ان کو کٹر قسم کا مولوی کہنا اور کہاں ان کا ان کو اچھا کہنا۔ اتنے میں ممتاز بھائی نے جوتے لا کر دیئے۔ میں نے جوتے زمین پر رکھ کر پاؤں ان میں ڈالا اور سی کہہ کر رہ گیا۔ ایک بڑا سا کانٹا تلوے سے چمٹا ہوا تھا۔ میں نے کانٹا نکالا اور سوچ میں پڑ گیا، اگر حضور نہ رکتے تو میں بے محابا ان کے پیچھے دوڑتا۔ ہو سکتا ہے کہ کانٹا دور تک اندر اتر جاتا یا اندر ہی ٹوٹ جاتا، مگر نہیں جب مرید اپنے مراد کے ہمراہ ہو تو راستے کا ہر کانٹا بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ ماں بھی تو اپنے بچوں کے پیر میں کانٹا چبھنے پر تڑپ اٹھتی ہے۔ مرشد کریم نے ماں سے بڑھ کر پیار کا اظہار فرمایا تھا۔ ماں کانٹے کو چبھنے سے نہیں روکتی، چبھنے کے بعد تڑپتی ہے۔ مرشد نے کانٹے کو چبھنے سے پہلے ہی روک دیا تھا۔ مرید گھیرے میں لینے والی شفقت کے تاثر میں ڈوبا۔ ایک بے پایاں پیار کے محیط ہونے کا احساس لئے……نم دیدہ، نم دیدہ اپنے مراد کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔

                دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ آرام کرنے کے بعد لوگوں سے ملنے کے سلسلے کا دوبارہ آغاز ہوا اور نماز عصر تک جاری رہا۔ نماز عصر کے بعد خطاب ہوا۔ اس خطاب کو سننے کہاں کہاں سے لوگ وہاں پہنچے تھے۔ یہ بات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ایسی ایسی دور افتادہ جگہوں کے نام سنے کہ حیرت ہوئی کہ وہاں یہ اطلاع کیونکر پہنچی ہو گی۔ مرید کے ذہن میں وہ بینر لہرایا جو اس نے میر پور کے چوک میں لہراتا دیکھا تھا۔ وہاں سے اطلاع ہوا کے دوش پر کہاں کہاں پھیل گئی۔ جہلم اور پنڈی تک سے لوگوں کا وہاں پہنچنا تو سمجھ میں آ رہا تھا مگر پشاور، مردان اور سوات سے لوگوں کا وہاں آنا ہمیں یہ بات سمجھ آتی تو کیا اور نہ آئی تو کیا۔

                خطاب شروع ہوا۔ سماعتوں کے دام پھیلے۔ میرے مراد کے مدھر نرمل اور کومل سی میٹھی آواز قلب و روح میں گداز گھولتی چلی جا رہی تھی۔ وہ خواتین و حضرات سے کہہ رہے تھے:

                ’’آپ حضرات تشریف لائے۔ اس مجلس میں دور و نزدیک پنڈی و جہلم سے آپ کا آنا، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے دل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے معمور ہیں اور آپ سب خواتین و حضرات وہ طریقہ معلوم کرنا چاہتے ہیں جس پر چل کر آپ حضورﷺ کی زیارت سے مشرف ہو سکیں، آپ کو انﷺ کی خوشنودی حاصل ہو جائے۔‘‘

                ’’جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے، مختلف طرح کے لوگ یہاں آتے رہے، جاتے رہے۔ یہاں جو بھی انسان حیوان یا پودا پیدا ہو گیا، اس پر موت آنا لازم ہے۔ ہر شئے کی عمر کا ایک تعین ہے۔ درختوں کی عمریں انسانوں اور حیوانوں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ عمر پہاڑ کی ہوتی ہے مگر بالآخر وہ بھی مر جاتے ہیں۔ اس تمام بات کا مدعا یہ ہے کہ یہاں سب کچھ عارضی اور ختم ہو جانے والا ہے۔‘‘

                ’’دنیا ایک عارضی قیام گاہ سے کچھ زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ یہاں نہ تو آدمی اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ اگر پیدائش پر انسان کو اختیار ہوتا تو سب بادشاہ کے یہاں پیدا ہوتے۔ اللہ نے ہمیں یہاں ایک وقت معینہ کے لئے بھیجا اور یہاں سے واپس پلٹ کر جانا طے کر دیا۔ ہم کو یہاں اپنی ڈیوٹی پوری کرنا ہے۔ دنیا کی زندگی میں انسان دو طرح سے زندگی گزارتا ہے۔ یہ دونوں زندگیاں ایک طرح کی ویڈیو فلم ہیں۔ کراماً کاتبین بندے کی ایک ایک حرکت، ایک ایک لمحے کی فلم بناتے ہیں۔ اگر اچھے اعمال کی فلم زیادہ طویل ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور اگر فلم میں بداعمالیاں اور نافرمانیاں زیادہ ہیں تو جب وہ فلم دیکھتا ہے تو وہ روتا ہے۔ اگر وہ فلم رونے کی، دہشت ناک مناظر کی فلم ہے تو ہم پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم اس فلم کو اتنے انہماک سے دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اس فلم کے تمام تاثرات ہم پر طاری ہو جاتے ہیں اور اگر ہم نے کوئی اچھا کام کیا ہو گا تو وہ سب اس فلم پر آ جانے کے سبب ہم اس فلم کو ایک اچھی فلم کہیں گے اور اگر ہم نے اچھے کام نہیں کئے ہونگے تو وہ بھی اس فلم پر آ جائے گا۔ پیدائش سے موت تک کا وقفہ ایک فلم کی طرح ہم سے چپکا ہوا ہے۔ اگر انسان سے ایک ذرہ برابر اچھائی ہوئی ہے تو وہ بھی اسے دیکھ لے گا اور اگر ذرہ برابر برائی ہوئی ہے تو وہ بھی دیکھ لے گا۔ پوری زندگی ایک ریکارڈ ہے۔ ایک ایسا ریکارڈ جہاں ہاتھوں پیروں کی گواہی ہو گی۔ اچھے برے عمل ہوں، خیر کے کام ہوں یا شر کے، انسان کے خود اپنے ہاتھوں پیروں کی گواہی ہو گی۔‘‘

                ’’وہ سٹیج جہاں یہ فلم بنتی ہے اس سٹیج کو ہم مسافر خانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ابراہیم بن ادھم کے پاس ایک فقیر آیا۔ فقیر کے چہرے پر کچھ ایسی بات تھی کہ کوئی اس فقیر کر راستہ نہ روک سکا۔ فقیر نے کہا مجھے رہنے کو جگہ چاہئے۔ حضرت ابراہیم ادھم نے اس کو کہا تم جا کر کسی سرائے میں ٹھہرو، یہاں کہاں آگئے؟ فقیر نے پوچھا تو یہ کون سی جگہ ہے، ادھم نے کہا یہ تو میرا محل ہے۔ فقیر نے پوچھا کہ آپ سے پہلے یہاں کون رہتا تھا؟ بتایا کہ میرا باپ۔ پوچھا کہ اس سے پہلے۔ بتایا میرا دادا۔ اس نے پھر پوچھا اور اس سے پہلے؟ بتایا کہ فلاں بادشاہ۔ فقیر نے کہا تو پھر سرائے اور کیا ہوتی ہے؟ آپ کا یہ دربار بھی ایک مسافر خانہ ہی تو ہے۔‘‘

                اس واقعے نے حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے دل پر کچھ ایسا اثر کیا کہ انہوں نے دربار چھوڑ دیا، محل چھوڑ دیا، بادشاہت چھوڑ دی اور ایک تکیہ، ایک پیالہ اور ایک جائے نماز لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ایک آدمی اوک (دونوں ہاتھوں کے چلو ملا کر) سے پانی پی رہا ہے۔ انہوں نے اسے دیکھا تو اپنا پیالہ اسے دے دیا۔ پھر ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صاف ہموار زمین پر نماز پڑھ رہا ہے تو انہوں نے اپنا مصلا پھینک دیا۔ ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ بازو سر کے نیچے رکھے سو رہا ہے، اس پر انہوں نے سرہانہ بھی پھینک دیا۔ بیٹا جوان ہوا تو اس کو خیال ہوا کہ میرا باپ کہاں ہے؟ وہ تلاش میں نکلا اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے باپ کو تلاش کر ہی لیا۔ دیکھا کہ باپ دریا کنارے ایک کٹیا کے باہر بیٹھا گدڑی سی رہا ہے۔ باپ سے ملا اپنا تعارف کرایا۔ باپ خوش ہوا کہ اللہ نے میرے دل کی خواہش پوری کر دی اور بیٹے کو جوان دیکھا۔ بیٹے نے باپ سے اپنے ہمراہ چلنے کی درخواست کی۔ ظاہر ہے باپ نے انکار کر دیا۔ اس پر جوان خون نے جوش مارا ہو گا۔ اس نے باپ کے ہاتھ سے سوئی لے کر دریا میں پھینک دی کہ آپ نے بادشاہت چھوڑ کر یہ کیا کام شروع کر دیا ہے؟ حضرت ابراہیم بن ادھم نے مچھلیوں کو مخاطب ہو کر آواز دی۔ بھئی! دیکھنا میری سوئی لا دو۔ انہوں نے دیکھا کہ مچھلی سطح آب پر نمودار ہوئی اور اس کے منہ میں سوئی تھی۔ انہوں نے کہا میں تو بوڑھا آدمی ہوں، کہاں نیچے اتر کر سوئی پکڑوں۔ اس پر مچھلی تڑپ کر اچھلی اور ابراہیم کی گود میں آن گری۔ انہوں نے سوئی لے کر مچھلی کو واپس دریا میں ڈالا اور بیٹے سے کہا تو نے دیکھی بادشاہی؟‘‘

                بہت اصرار سے فرمایا۔’’جو بندہ دنیا کو اللہ کے کہنے کے مطابق مسافر خانہ سمجھ لیتا ہے، اس کی حکومت ہواؤں، پانیوں اور زمینوں پر قائم ہو جاتی ہے۔‘‘

                ’’بچے کو اس دنیا میں آنے پر، اس دنیا میں پیدا ہونے پر، یہ دنیا پہلے سے بسی ہوئی ملتی ہے اور جب وہ اس دنیا سے جاتا ہے تو دنیا میں پہنے ہوئے کپڑے تک اتار لئے جاتے ہیں۔ یہ کیسا ظلم ہے؟‘‘

                ’’آپ پیدا ہوتے ہیں تو مانگا ہوا کپڑا پہنتے ہیں، مرتے ہیں تو مانگا ہوا کپڑا پہنتے ہیں، کہتے ہیں دنیا ہے ہی آنی جانی شئے۔ ہر مسافر کو اس ریل سے ایک روز اترنا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ اپنی مرضی سے مر نہیں سکتے تو ہم آخر اس دنیا میں آتے ہی کیوں ہیں؟ جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم کیوں آئے ہیں؟ تو پھر ہم یہاں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟‘‘

                ’’حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھے ایک قصہ سنایا کہ ایک بوڑھا آدمی محنت مزدوری کرتے کرتے عاجز آ گیا۔ ایک روز سرے سے لکڑیوں کا گٹھا گر گیا۔ اس نے سوچا کہ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے، اس سے تو بہتر ہے کہ بندہ مر ہی جائے۔ یہ سوچ کر اس نے آواز لگائی۔ بھائی ملک الموت تم کہاں ہو؟ تم آتے کیوں نہیں؟ ملک الموت کہیں قریب ہی ہوں گے، مجسم ہو کر سامنے آگئے اور پوچھا: میرے لائق کیا حکم ہے؟ بوڑھے نے کانپتے ہاتھوں کا چھجہ سا بناتے ہوئے آنکھوں کے اوپر رکھا اور پوچھا: اے بھائی تم کون ہو؟ اس نے جواب میں کہا۔ میں ملک الموت ہوں۔ ابھی آپ مجھے ہی تو پکار رہے تھے۔ لیجئے میں حاضر ہوں۔ کوئی خدمت جو آپ مجھ سے لینا چاہیں۔ بوڑھے نے کہا۔ اے بیٹا! بس اتنی سی تکلیف کرو کہ یہ گٹھا اٹھا کر میرے سر پر رکھ دو۔ تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘

                فرمایا۔’’انسان مرنا نہیں چاہتا لیکن مر جاتا ہے۔ اس کا یہاں رہنے کو جی بھی نہیں چاہتا لیکن رہتا بھی ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ نہیں مانتا کہ یہاں میرا قیام عارضی ہے۔‘‘

                ’’اللہ نے ساری کائنات اس لئے پیدا کی کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جو اس مسافر خانے کو دیکھ کر، اس کی تزئین و آرائش دیکھ کر، اس طرف متوجہ ہو کہ اس کو کس نے بنایا اور وہ جس نے یہ اتنی خوبصورتی ہر طرف پھیلا دی ہے، وہ خود کس قدر خوبصورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا تا کہ وہ مجھے پہچان لے۔‘‘

                فرمایا۔’’انسان کی زندگی، انسان کی اس دنیا میں پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اس خزانے تک پہنچ جائے۔ خزانے تک پہنچنا ہی عرفان ہے۔ انسان اللہ کے راستے پر چل کر اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر لے، یہ ہے اصل مقصد حیات۔‘‘

                ’’انسان دو قسم کے راستوں میں سے کسی ایک پر چلتا ہے۔ نیکی کا راستہ یا برائی کا۔ رحمان کا راستہ یا شیطان کا۔ یہ فیصلہ انسان خود کرتا ہے کہ اس کو کس راستے پر چلنا ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کو یہاں تک تو کہہ دیا کہ تمہارے اندر بیٹھا ہوں۔ تم دیکھتے کیوں نہیں اور یہ کہ میں تو تمہاری رگ جاں سے بھی قریب ہوں۔ اگر انسان اللہ کے راستے پر چل پڑے، قدم قدم چل کر وہ عرفان کی منزل پر پہنچ جائے۔ وہ اللہ کو دیکھ لے تو اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔‘‘

                ’’اللہ تو وہ ہے جو ہر انسان کی زندگی کی دیکھ بھال اور مرمت پر روزانہ ایک کروڑ روپے خرچ کرتا ہے۔ ان اخراجات میں پانی، آکسیجن اور درخت شامل نہیں۔ زمین، دھوپ اور چاندنی کی بھی قیمت شامل نہیں کی گئی۔ سورج کی دھوپ نہ ہونے سے کیڑے مکوڑے پل پڑیں۔ چاندنی نہ ہونے سے پھل کڑوے ہو جائیں۔ ہم ماں کی محبت کی کیا قیمت ادا کرتے ہیں۔ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تا کہ آپ عقل و شعور کے ساتھ یہ دیکھیں کہ آپ اللہ کے سامنے حاضر ہیں۔ جب آپ اللہ کو سجدہ کریں تو آپ کو محسوس ہو کہ آپ کا سر اس کے پیروں میں رکھا ہے۔‘‘

                ’’اگر اللہ اپنی جان ہم میں نہ ڈالتا تو ہم کہاں ہوتے، کیا ہوتے؟ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس میں یہ سکت ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ سکتا ہے، دیکھ کیا سکتا ہے، دیکھ چکا ہے۔‘‘

                الست بربکم۔ قالو بلیٰ کی آیت پڑھ کر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

                ’’کیا نہیں ہوں میں……میں تمہارا رب، اللہ نے روحوں کو مخاطب کر کے پوچھا۔ اس پر روحوں نے اللہ کو دیکھا اور سمجھا اور پھر اقرار کیا، جی ہاں۔ آپ ہیں ہمارے رب یعنی روح نے اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا اور روح کیا ہے؟ روح ہمارے اندر رہتی ہے۔ روح نہ ہو تو ہم مردہ ہیں۔ کبھی کسی مردہ جسم نے کوئی حرکت کی؟ اس کا یہی مطلب ہے کہ جب تک اس جسم میں روح ہے آپ ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ جب انسان اپنی روح سے واقف ہوتا ہے تو وہ اللہ کا مقصد پورا کر دیتا ہے، جس کے لئے اس کو تخلیق کیا گیا تھا۔ اللہ کہتا ہے کہ میرے بندے میری بنائی ہوئی نشانیوں پر غور کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ واہ کیا اللہ ہے!‘‘

                ’’اگر اللہ کی رحمت محیط نہ ہو تو بندہ زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ ہمیں اس لئے یہاں بھیجا گیا ہے کہ ہم ہر عمل خوشی سے کریں۔ ہر عمل پر خوش ہو کر اللہ کا شکر ادا کریں۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔