Topics

محبتوں کے رنگ


                آپ نے محبتوں کے بہت سے رنگ دیکھے ہوں گے۔ میں محبت کو ایک سیال شئے کی مانند اوپر سے نیچے بہتے دیکھنے والوں میں سے ہوں۔ محبت کا دھارا ماں سے اولاد کی طرف بہتا ہے، کبھی اولاد سے ماں کی طرف نہیں بہتا۔ ماں سے پیار ہوتا ہے تو وہ محض خود اس کی محبت کی کشش کا ردعمل ہی ہوتا ہے۔ وہ ہماری ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہمیں پیاری ہوتی ہے۔ وہ محبت جو ماں کرتی ہے بے غرض بے لوث اور بے طرح ہوتی ہے۔ اسی محبت میں وہ شئے ہوتی ہے جس کی مثال دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنی محبت کو اس محبت کا ستر گنا سے زیادہ ہونا بتایا ہے۔ ماں کی محبت کو میں نے جب بھی ستر گنا کر کے محسوس کرنے کی کوشش کی،چکرا کر رہ گیا۔ ماں تو اپنی اولاد کو محض ایک نظر دیکھ لے تو نہال ہو جاتی ہے۔ اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اس میں فخر و انبساط کے علاوہ اپنائیت کا جو رنگ ہوتا ہے اس کو اگر ستر گنا سے زیادہ کر لیا جائے تو وہ کس قدر ہو گا۔ میرا ذہن اکثر اس گھتی کو مقداروں کے حوالے سے حل کرنے کی کوشش کرتا اور ناکام رہتا ہے۔ اس ناکام رہنے ہی کی بابت تو مرشد کریم نے فرمایا تھا کہ اللہ تو وہ ہے جس کے سامنے سوائے تحیر اور درماندگی کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ میں نے اپنے مراد کو اپنی روحانی اولاد سے محبت کرتے دیکھا بھی ہے اور محسوس بھی کیا ہے۔ ان کی محبت کا دائرہ کبھی کبھی تو مجھے پھیل کر اس طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس طرح سے میں اپنی والدہ کی محبت اور شفقت کی لہروں کو محسوس کرتا ہوں۔ ان کی بے پایاں محبت کا موازنہ میں نے اکثر اپنے مراد کی محبت سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے پہل تو مجھے یہ بات ہی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کوئی شخص بغیر کسی مادی تعلق کے آپ سے اتنی محبت کیونکر کر سکتا ہے؟ پھر رفتہ رفتہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ مادی تعلق تو ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ ماں اپنی اولاد سے بے خبر ہو سکتی ہے۔ اس کو بھول سکتی ہے۔ اس سے بے پروا ہو سکتی ہے۔ اس کا اپنی اولاد سے عالم رنگ و بو سے آگے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ وہ اپنی محبت کے ہاتھوں حسد کا شکار ہو جاتی ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے میں ساس اسی حسد کا شکار ہوتی ہے لیکن مراد کی محبت میں یہ بات نہیں ہوتی۔ نہ تو وہ بے پروا رہتی ہے اور نہ ہی بھول کا شکار ہوتی ہے۔ بات محسوس کرنے کی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اللہ کی محبت کو محسوس کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اللہ کی بے پایاں، بے حد اور بے کنار محبت کے سمندر کی لہروں کو محسوس کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر اگر ہم اپنے مراد کی محبت کو محسوس کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو کیا تعجب۔

                ایک بار میں کراچی مراقبہ ہال میں اپنے مراد کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ سلسلہ میں داخل ہوئے مجھے کچھ زیادہ مدت نہ ہوئی تھی۔ میں ابھی آداب نیاز مندی تو کجا آداب محفل تک سے ناواقف تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چراغ جلائے جا چکے تھے لیکن ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا۔ ہموار زمین سے قدرے بلند چبوترے پر دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ اس دسترخوان کے درمیان ایک گیس رکھا تھا۔ مرشد کے قرب میں محسوس ہونے والی لذت سے حواس آشنا ہو رہے تھے۔ میں اپنے مراد کے بائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ ایک خاتون تشریف لائیں۔ مرشد کریم نے انہیں وہیں بلا لیا۔ وہ آ کر دسترخوان پر ہمارے سامنے بیٹھ گئیں۔ میں نے انہیں گیس کی سفید روشنی میں دیکھا۔ کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد کئی بار میری نظر ان کی طرف اٹھی۔ چند ایک بار ہماری نگاہیں آپس میں ٹکرائیں بھی۔ روشنی نے کئی پتنگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس اندھیرے میں، اس سفید روشنی میں، ان کے چہرے پر کھیلتی مسکراہٹ نے مجھے کئی بار اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں ادھر متوجہ ہوا تو میرے مراد کی مدھر سی آواز آئی۔

                ’’آیئے! مقصود صاحب چلیں۔ یہاں تو پروانے آ گئے ہیں۔‘‘

                جوتی پہنتے ہوئے ارشاد فرمایا:

                ’’پروانہ بھی عجیب ہوتا ہے، جانتا ہے کہ جل جاؤں گا مگر باز نہیں رہ سکتا۔ پروانہ جو ہوا۔‘‘

                میں اس طرح سے کبھی خجل نہ ہوا تھا جس طرح اس روز ہوا۔ میں اس بات پر آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ اصلاح میں اتنی لطافت بھی ممکن ہے۔ سب کے سامنے میری کوتاہی کو اس انداز میں جتا دیا کہ سوائے میرے کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ میں کیا کہتا؟ کہنے کو رہا ہی کیا تھا؟ آج تک اپنی اس طرح سے اصلاح کئے جانے کا لطف لیتا ہوں اور مرشد کریم کی بے پایاں محبت کو محسوس کرتا ہوں۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔