Topics
کسی نے نماز کی بابت سوال کیا تو فرمایا:
’’جب اللہ اکبر کہہ دیا تو آپ کے ذہن سے ہر شئے کی بڑائی نکل جانی چاہئے۔ نماز
کے دوران کسی اور چیز کا دھیان آ گیا تو اس کا مطلب ہوا وہ شئے بڑی ہو گئی اور
اللہ کی بڑائی پس پشت چلی گئی۔‘‘
پھر کتاب ’’تجلیات‘‘ منگوائی اور ایک بھائی کو دے کر اس میں سے پڑھ کر سنانے
کو کہا۔ جب ایک پیراگراف پڑھ لیا گیا تو پوچھا:
’’آپ نے کیا پڑھا؟‘‘
یہ سوال کئی بار کیا۔ پھر دوبارہ پڑھوایا۔ پھر پوچھا:
’’جی! تو آپ نے کیا پڑھا؟‘‘
پڑھے گئے پیراگراف کا خلاصہ سا سن کر’’حاجی صاحب آپ یہاں باقاعدہ کلاسیں شروع
کریں۔ کلاسوں میں حاضری کو باقاعدہ بنانے کو تنبیہہ کریں۔ نہ مانیں تو جرمانہ کریں۔
پھر بھی نہ مانیں تو نکال دیں۔ بھیڑ اکٹھی کر کے کیا کرنا ہے۔ آپ کو ان کی تربیت
کرنا ہے۔‘‘
اسی دوران فیاض صاحب آئے۔ ان کی کمر میں شدید درد تھا۔ انہیں گاڑی میں لٹا کر
لایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مرشد کریم کے قدموں میں لٹا دو میں ٹھیک ہو جاؤں
گا۔ پھر ایک شعر پڑھا۔ میرا مراد اپنی چھتنار مسکراہٹ پھیلائے انہیں دیکھتا رہا۔
شعر میں سوز و گداز اور محبوب سے اپنے قدموں میں پڑے رہنے دینے کی التجا تھی۔ فیاض
صاحب سے میں پہلے بھی مل چکا تھا۔ وہ قصہ شاہ ملوک پڑھنے میں ایک خاص آہنگ رکھتے
ہیں۔ مراد نے بڑی ہی توجہ سے انہیں دیکھا۔ وہ اسی سے سیراب ہو گئے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔