Topics

سوال کیا گیا کہ مراقبہ کیوں؟ نماز کیوں نہیں؟


                اس پر سوال کیا گیا کہ مراقبہ کیوں؟ نماز کیوں نہیں؟ جواب میں آپ نے فرمایا کہ جب ہم کوئی کام کریں تو اس کام کے لئے ضروری ہے کہ ہماری توجہ بھی اس کام میں ہو۔ اس کے لئے آپ نے Concentrationکا انگریزی لفظ استعمال کیا اور کہا کہ جب تک آپ کی تمام صلاحیتیں ایک مرکز پر مرکوز نہ ہوں گی آپ کوئی کام ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتے۔ آپ اگر منتشر خیال ہوں تو آپ صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے۔ مقدمے کی مناسب تیاری نہیں کر سکتے۔ اگر کسی کو نماز میں یکسوئی اور Concentrationحاصل ہے تو یہ نماز ہی اس کے لئے مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل Concentrationہی کی مشق کا نام ہے۔

                پھر ایک سوال تصوف کی ایک اصطلاح جمع الجمع کے حوالے سے کیا گیا۔ اس پر خواجہ صاحب نے تبسم فرماتے ہوئے کہا کہ آپ اس محفل میں ایسے سوال پہ بات کرنے کی دعوت دے رہے ہیں کہ اگر میں اس کی تشریح کروں تو صرف میں سمجھوں گا یا آپ۔ یہاں بیٹھے ہوئے باقی سب حضرات کے پلے کچھ نہیں پڑے گا۔ کبھی آپ میرے پاس آئیں تو اس پر گفتگو ہو۔ کچھ آپ کہیں کچھ میں کہوں۔ اس کے بعد بالکل ہی سادہ سے الفاظ میں یہ کہہ کر بات کی وضاحت کرتے ہوئے موضوع کو لپیٹ دیا کہ تصوف آپ کو یہ بتاتا ہے کہ کس طرح قدم قدم چل کر عرفان حاصل ہوتا ہے۔ مومن کو مرتبہ احسان حاصل ہوتا ہے۔ یعنی وہ اللہ کو دیکھتا ہے اس سے ملتا ہے اور پھر یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے بندے کو قربت دے سکتا ہے۔

                سوالات کے بعد بار روم سے ملحق کمیٹی روم میں چائے کا اہتمام تھا۔ چائے پر بھی گفتگو کا موضوع روحانیت ہی رہا۔ ایک صاحب نے بہت ہی چبھتا ہوا سوال کیا۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔