Topics
ایک صاحب نے ایک بہت ہی عجیب سا سوال کیا۔ یہ سوال اس سے پیشتر کشمیر میں
پوچھا گیا تھا اور پھر سوات میں بھی تینوں جگہ۔ سوال ایک ہی تھا کہ جب یہ بتایا
جاتا ہے کہ روحانی صلاحیتیں رکھنے والے کے پاس تکوینی انتظامات تک کا اختیار آ
جاتا ہے تو پھر وہ لوگ اس دنیا کے نظام کو ٹھیک کیوں نہیں کر دیتے؟
کشمیر میں اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’روحانی بندہ ایک چھتری کی چھاؤں میں کھڑا ہوتا ہے اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ چھاؤں
چھوڑ کر دھوپ میں نکلے اور پھر آگ میں گھس کر لوگوں کو پکڑ کر زبردستی نکالنے کی
کوشش کرے؟ وہ آواز دیتا ہے کہ آؤ! میرے قریب آ جاؤ! تم بھی چھاؤں میں آ جاؤ۔
چھاؤں اٹھا کر تو آگ میں گھسنا بے کار سی بات ہی ہے۔‘‘
سوات میں اس کا جواب یہ تھا کہ روحانی لوگ جن کو اللہ تعالیٰ اختیارات سے
نوازتے ہیں ان کو عطاکردہ اختیارات کے استعمال کی سمجھ اور سوجھ بوجھ بھی عطا کرتے
ہیں۔ وہ ان اختیارات کو اللہ کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے استعمال کرنے کے
پابند ہوتے ہیں۔
وہ اللہ کے قوانین کو آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے وہ اچھے کام میں
تو آپ کی مدد کرتے ہیں مگر برے کاموں میں نہیں۔ اب یورپی اقوام کے افراد جو ایجادات
کرتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے وہ ایسے لوگوں کی امداد اور تصرف کے بغیر ہی ہو
جاتی ہیں؟ وہ چونکہ اس کے اہل ہوتے ہیں اس لئے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ آپ اہلیت نہیں
رکھتے اس لئے آپ کی مدد بھی نہیں ہوتی۔
آپ تو ہر کام کے لئے حکومتوں سے توقع رکھتے ہیں۔ حکومتوں سے توقع نہ رکھیں،
اپنی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا لیں اور مل جل کر ایجادات کریں۔ حکومتوں نے تو ایجادات
کرنے والوں کے راستے میں ہمیشہ روڑے ہی اٹکائے ہیں بلکہ پہلے تو وہ سزا دے دیا
کرتے تھے۔ گلیلیو کو تو پھانسی کا حکم دیا کہ اس نے دوربین کیوں بنائی۔ بھئی حکومت
کو کیا پڑی ہے کہ آپ کی مدد کرے؟ آپ کوئی ایجاد کر لیں، مل جل کر کوشش کریں جب
وہ کامیاب ہو جائے گی تو حکومت سے گرانٹ مانگ لیں۔ گرانٹ ملے نہ ملے، ٹیکس تو لگ ہی
جائے گا نا۔ آپ تو اپنے گھروں کے کوڑا کرکٹ کی صفائی تک کے لئے حکومت کی طرف دیکھتے
ہیں۔ جو کام آپ کے کرنے کے ہیں وہ سب آپ کو خود ہی کرنے چاہئیں۔
اور اب ہم منتظر تھے کہ دیکھیں ان سابقہ دیئے گئے دونوں جوابوں میں کونسا دہرایا
جاتا ہے مگر جواب سن کر اتنا سمجھ میں آ گیا کہ وہ بات ہمیشہ مخاطب کے ذہن، اس کی
سوچوں اور اس کی سکت کے مطابق دیتے ہیں جس کے ذہن میں جیسے خیالات ہوتے ہیں اس کو
انہی خیالات کے مطابق جواب ملتا ہے۔ مخاطب کی Approachکو سامنے رکھتے ہوئے
جواب دیا جاتا ہے تو اس کی اثر پذیری میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے اس سے ہمیں اپنے
مراد کی رسائی کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ فرمایا:
’’بھئی وہ قرآن میں ہے نا ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ دین سے مراد مذہب ہی نہیں بلکہ
نظام اور سسٹم بھی لیں تو اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی نظام میں زبردستی نہیں ہے اور
جب یہ بھی طے ہو کہ اللہ کبھی اس کی حالت نہیں بدلتے جو خود آپ اپنی حالت بدلنے کی
خواہش نہ رکھتے ہوں تو آپ خود دیکھ لیں کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کی حالت
بدلنے کے لئے اپنے بندوں کو مامور کریں۔ وہ بندے اپنی مرضی سے تو کچھ کرتے نہیں جیسا
اللہ چاہتا ہے ویسا ہی کرتے ہیں۔‘‘
ایک مرید نے سوال کیا۔ تذکرہ قلندر بابا اولیاء میں صاحب مجاز افراد کے ضمن میں
عبیداللہ صاحب کا جو ذکر کیا گیا ہے کیا وہ یہ پشاور والے عبیداللہ درانی صاحب ہی
تھے؟ فرمایا۔ ’’جی ہاں‘‘۔
اس پر مرید نے عرض کی کہ انہوں نے سلسلہ عالیہ کے لئے کیا کیا؟
فرمایا:’’حضور قلندر بابا اولیاء نے انہیں تکوین میں لیا تھا۔‘‘
ایک دوسری نشست میں
فرمایا:
’’درانی صاحب تو روحانی باتیں تک نہیں کیا کرتے تھے۔ اکثر خاموش رہتے تھے۔ جب
کبھی میں ان سے ملنے جاتا تو ان کے مرید خوش ہوتے کہ جب حضرت عظیمی صاحب آتے ہیں
تو ہمارے مرشد ہنستے ہیں۔ وہ بہت پیار کرتے تھے سلسلے سے۔ جب بھی کراچی آنا ہوتا۔
چند منٹ کے لئے ہی سہی مجھ سے ملنے ضرور آتے۔ ان کے ایک مرید پطرس اور ایک مائیکل
صاحب روحانی آدمی تھے۔ قادر نگر کا انتظام انہی نے سنبھالا ہوا تھا۔ درانی صاحب
نے خود تو اتنا کچھ لکھا بھی نہیں صرف ’’حیات قادر‘‘ ان کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ باقی
اگر کچھ لکھوایا بھی تو ولی الدین صاحب سے۔‘‘
اس پر مرید نے ’’روحوں سے گفتگو‘‘ نامی کتاب کا تذکرہ کیا کہ درانی بابا نے اس
کا دیباچہ لکھا اور بات روحیں بلانے اور ان سے گفتگو کے بارے میں شروع ہو گئی۔ نیاز
صاحب نے کہا کہ یہ گفتگو درحقیقت روح سے نہیں ہوتی بلکہ بلائی جانے والی روح کا ایک
آدھ پرت جو یہاں پیچھے رہ جاتا ہے، وہ ان قسم کی مجالس میں حاضر ہو کر گلاس ہلا
کر یا کوئی دوسرا طریقہ اظہار اختیار کر کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ اس پر مرشد کریم نے بتایا کہ انہوں نے نیاز صاحب اور کرنل منظور
بخشی صاحب کو اس کا طریقہ بتایا تھا کہ کس طرح لوٹا گھما کر روحوں سے گفتگو کی جاتی
ہے۔
فرمایا:’’میں تو خیر سو گیا تھا یہ دیر تک لگے رہے تھے۔‘‘
ایک بار مرید کو اپنے مراد کے ہمراہ کوہاٹ جانے کا شرف حاصل ہوا۔ وہاں پر کرنل
منظور بخشی صاحب میزبانی پر مامور تھے۔ صاحب دل اور گرم جوش۔ ان کے بارے میں مجھ
سے فرمایا تھا:
’’ان کو ان کے مرشد نے بتایا تھا کہ آپ کو ایک بندہ ملے گا جو آپ کو منزل کی
طرف لے جائے گا۔ ابھی ان پر ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ذرا فارغ ہو جائیں۔ پھر یہ سلسلے کیلئے
کام کریں گے۔‘‘
ناشتہ تیار ہونے کی اطلاع لے کر جمشید عظیمی آئے۔ ناشتے کے لئے لوازمات اور
اہتمام دیکھ کر فرمایا:
’’پہلوانوں کا ناشتہ ہے۔‘‘
میں نے جملہ کہا:
’’ہم بھی تو پہلوانوں سے کم نہیں۔‘‘
خود ستائشی خواہ وہ مزاح ہی کی صورت ہو کوئی احسن بات نہیں۔ قدرے توقف کے بعد
فرمایا:
’’ربی یہودی علماء کا خطاب ہے۔ اس کا مطلب ہے میرا رب۔ مولوی کا مطلب ہے میرا
مولا۔ مولانا کا مطلب ہے ہمارا مولا۔ عیسائیوں میں فادر کا لفظ Holy Fatherیعنی خدا سے منسوب کیا گیا ہے۔ ہندوؤں میں برہمن۔ برہما یعنی خدا سے مشتق ہے۔ یہ
سب سن سن کر آخر کب تک اثر نہیں ہو گا۔‘‘
یعنی الفاظ کے اثرات ہوتے ہیں اور ان کے اثرات، ان کے تکرار کے تناسب سے بڑھتے
چلے جاتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ خانقاہی نظام میں القاب و آداب کے بجائے مرشد کریم
اور حضور کے الفاظ مروج ہو جانے میں بھی تو یہ رمز نہیں؟ حضور کا لفظ حاضر رہنے
اور حاضری توجہ سے منسوب ہے۔ وہ جس کے سامنے توجہ حاضر رہے۔ اسی لئے تو بات اثر
کرتی ہے اور دیر تک کرتی ہے۔
فرمایا:’’ہر معاشرے کی اپنی روایات ہوتی ہیں۔ لوگ ان روایات کے اسیر ہوتے ہیں۔
محض اس لئے مسلمان ہوتے ہیں کہ وہ مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس طرح آپ مسلمان
ہوئے ہی کب؟ مسلمان کے لئے تو روایات کو توڑنا لازم ہے۔ ہر پیغمبر نے پچھلی روایات
کو توڑا۔ اسی لئے تو جنگیں ہوئیں۔ عرب میں روایت تھی کہ اگر کسی بندے کو اس کا قبیلہ
نکال دیتا تھا اور کوئی دوسرا قبیلہ اس کو امان میں نہیں لیتا تھا تو اس کو کہیں
پناہ نہیں ملتی تھی۔ اس کا مقدر یا تو ریگستان ہوتا اور یا پھر موت۔ حضور اکرمﷺ اسی
لئے طائف گئے تھے کہ ان کے قبیلے نے ان کو نکال دیا تھا۔ وہ وہاں امان لینے ہی گئے
تھے۔ ان لوگوں نے ان کی پشت پر قبیلے کی سپورٹ نہ دیکھ کر ہی تو ان کو پتھر مارے
تھے۔ ایک عیسائی غلام نے ان کو وہاں سے نکالا۔‘‘
فرمایا:’’بندہ ایسے کام کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اچھے ہیں لیکن درحقیقت وہ
اللہ کے نزدیک برے ہوتے ہیں اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ سمجھتا ہے کہ یہ
برے ہیں۔ ہمیں کیا پتہ کہ اللہ کی پسند اور ناپسند کیا ہے؟ ہم نے نہ تو شیطان کو دیکھا
ہے اور نہ ہی اللہ کو۔ ہمیں اللہ کی پہچان ہی کہاں؟ ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہے لیکن یہ
بات مشاہدے میں نہیں۔ مشاہدے میں تب ہی آتی ہے جب شک نہ ہو۔ یہ کتاب ہدایت دیتی
ہے متقیوں کو۔ مسلمین کو نہیں۔ منافقین کو نہیں۔ کفار کو بھی نہیں۔ مشرکین کو بھی
نہیں۔ متقی کہا ہے۔ ہدایت تب ملتی ہے جب شک بھی نہ ہو اور متقی بھی ہو۔ مسلمان
ہونا تو یہ ہے کہ آپ نے اللہ کی وحدانیت اور توحید کا اقرار کر لیا لیکن آپ میں
ایمان تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کو یہ یقین آ جائے کہ اللہ ہے۔ اللہ آپ کو دیکھ
رہا ہے۔‘‘
پھر اللہ کے دیکھنے کی کیفیت کی وضاحت کو ان پیر صاحب والا قصہ سنایا جن کے دو
مرید تھے اور ان سے باری باری مرغی ذبح کرنے کو کہا۔ایک نے کر لی اور دوسرے سے نہ
ہوئی کہ اس کو ہر جگہ اللہ نظر آ رہا تھا۔ قصہ بیان کر کے فرمایا:
’’انسان گناہ کرتا ہی تب ہے جب اسے کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔‘‘
فرمایا:’’اب میں اور نیاز صاحب یہاں اس کمرے میں اکیلے ہوں اور کوئی گناہ کرنا
چاہیں تو ہم پہلے تو یہ اطمینان کریں گے کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا۔ دروازہ
بند ہے تو بھی پردہ مزید کھسکا کر درست کر لیں گے اور اگر یہ شبہ ہو جائے کہ کوئی
دیکھ رہا ہے تو ہم گناہ کر ہی نہیں سکیں گے اور جب بندے کے اندر یہ طرز فکر راسخ
ہو جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو اس کو تو گناہ اور ثواب سے ویسے ہی نجات مل گئی۔
بھئی! جب آپ نے اللہ کو دیکھ لیا پھر کسی اور کی کیا پروا؟‘‘
’’آپ نے کبھی کسی فقیر کے بادشاہ بننے کا سنا ہے؟ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا۔
پوری تاریخ انسانی میں ہے ہی نہیں۔ البتہ یہ کئی بار ہوا ہے کہ بادشاہوں نے
بادشاہت چھوڑ کر فقیری اپنا لی۔ اس لئے کہ وہ حقیقی بادشاہ اور اس کی بادشاہت سے
واقف ہو گئے۔ حقیقی بادشاہ سے مل لینے کے بعد تو ہر بادشاہت ہیچ ہو جاتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔