Topics
ایک صاحب نے لطائف کی بابت سوال پوچھا۔ ان کے سوال کے جواب
میں فرمایا:
’’دراصل صعودی اور نزولی حرکات ہی لطائف ہیں۔ لاشعوری تحریکات کو وضاحت سے پورے
طور پر وصول کر لینا ہی لطائف کی رنگینی کہلاتی ہے۔ پیر و مرشد شعور سے بعد اور
لاشعور کے قریب ہونے کی بات کو ان لطائف ہی کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ پیر و مرشد یعنی
روحانی استاد دراصل مرید یعنی روحانی طالب علم کے لطیفہ نفسی کو رنگین کرتا ہے۔ اس
کی اتنی صفائی کرتا ہے کہ وہ صیقل ہو جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو جو کچھ بھی
سامنے آئے گا اس میں آمیزش ہو گی۔ اگر لطیفہ نفسی کے رنگین ہونے سے پہلے قلبی لطیفہ
رنگین ہو جائے یعنی اس کی تحریکات شروع ہو جائیں تو آدمی شیطان کو فرشتہ دیکھتا
ہے۔ اس کی مثال غلام احمد قادیانی ہے۔ وہ بھی شیطان کو فرشتہ سمجھتا رہا۔‘‘
یہ بھی فرمایا کہ نزولی کیفیت میں ذات کا عرفان ہوتا ہے جبکہ صعودی میں صفات
کا۔ پھر اس بات کی وضاحت کو پھول کی مثال دی اور فرمایا کہ پھول کا ادراک ہونا کہ یہ
گلاب ہے۔ پھول کی ذات کا ادراک ہوا اور یہ کہ اس پھول کا رنگ سرخ ہے، اس کی خوشبو
ایسی ہے، اس میں کانٹے ہیں وغیرہ وغیرہ……تو یہ سب صفات کا عرفان ہوا۔
پھر بتایا:’’ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس کا لاشعور پردے میں چلا جاتا ہے۔
بیس سال تک دھول پڑتی رہتی ہے۔ پردہ پوری طرح لاشعور کو اپنی اوٹ میں لے لیتا ہے۔
اسی دھول کی صفائی کرنا مرشد کا کام ہوتا ہے۔ اگر یہ صفائی یکدم کر دی جائے تو
انسان یکدم بچے کی حالت میں واپس چلا جاتا ہے یہ صورت جذب کہلاتی ہے اور اگر یہی
صفائی بتدریج اور آہستہ آہستہ کر کے اس پردے کو باریک جالی کی مانند کر دیا جائے
تو یہ عمل روحانی ترقی کہلاتا ہے۔ اس پردے کو بالکل ختم کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ اس
پردے کو باریک جالی کی مانند بنا دیا جاتا ہے تا کہ لاشعور اس پردے میں سے جھلکتا
رہے۔ فلٹر ہو کر آتا رہے۔‘‘
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔