Topics

کائنات کی گراریاں


                پھر مزید جھنجھوڑنے کو ایک اور سوال اٹھایا۔

                 ’’میدانی علاقوں میں عام طور پر پانی سو ڈیڑھ سو فٹ کی گہرائی پر نکل آتا ہے تو تین چار ہزار فٹ بلند پہاڑی علاقے میں کتنی گہرائی میں نکلے گا؟‘‘

                 ہم میں سے کسی نے جواب میں کہا۔ ’’یہی کوئی سو پچاس فٹ کی گہرائی میں۔‘‘

                فرمایا۔’’کیوں……؟ کیا اسے تین ہزار ایک سو فٹ کی گہرائی میں نہیں نکلنا چاہئے؟‘‘

                پھر خود ہی کہا ’’لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ اگر آپ اوپر پہاڑ کی چوٹی پر بھی کنواں کھو دیں گے تو یہی سو ڈیڑھ سو فٹ کی گہرائی پر پانی مل جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ وہی دعوت غور و فکر۔ قوم نے اسی ایک صفت کو چھوڑا اور خوار و زبوں ہوئی۔

                کچھ دیر خاموشی رہی پھر فرمایا۔

                ’’آپ یہ چٹانیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ چٹانیں لڑھکتی، ٹوٹتی اور ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ دریاؤں میں ان کی ریت بنتی ہے۔ جب یہ ریت سمندر میں پہنچتی ہے سمندر بتدریج پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے۔‘‘

                 پھر فرمایا۔

                ’’اللہ تعالیٰ نے کائنات میں گراریاں فٹ کی ہوئی ہیں۔ پھر ہاتھوں کو حرکت دے کر دیکھایا کہ چکی یوں چلتی ہے۔ لیکن پتھر اور چٹانیں اس طرح چلتی ہیں جیسے انسانی معدہ یا کار کا پہیہ۔ یعنی اوپر سے نیچے اور دوسری طرف نیچے سے اوپر۔ یہ سب حرکتیں ایک دوسرے سے یوں جڑی ہوئی چلتی ہیں کہ ایک حرکت دوسری کو جنم دیتی ہے۔ بھئی نل سے نل جڑا ہوا ہے۔‘‘

                 اس کے بعد گفتگو کا رخ سمندر میں لہروں کے آپس میں ٹکرانے سے بخارات بننے، بخارات سے بادل بننے، بادلوں کا ہوا کے دوش پر اوپر اٹھنے اور بالائی خطوں میں ٹھنڈک سے ان کے منجمد ہونے کی جانب مڑ گیا۔ ہواؤں کا بادلوں کو آپس میں ٹکرانا اور اس طرح دبانا جیسے گیلے کپڑے کو نچوڑا جاتا ہے۔ بادلوں کی آپس میں رگڑ سے بجلیوں کا پیدا ہونا، بجلیوں کے کڑکنے سے کیمیائی تبدیلیوں کا ہونا۔ نائٹریٹس کا بننا اور پھر پانی میں حل ہو کر برسنا اور کھاد کے اثرات رکھنا۔ بارش کے پانی کا بہتے بہتے ندی نالوں کی صورت اختیار کرنا پھر دریاؤں کی شکل میں واپس سمندر میں پہنچنے کے انتظامات کا پورا نقشہ اس تفصیل سے بیان کیا کہ نگاہوں کے سامنے ایک فلم سی چلتی رہی۔ میں نے ذہن میں موجود معلومات کی سطح میں اضافے کو نوٹ کرنے کو اپنے اندر دیکھا۔ میں نے پہلی تصحیح یہ نوٹ کی کہ بخارات سورج کی گرمی سے نہیں بلکہ لہروں کے ٹکرانے سے بنتے ہیں اور پانی صرف بلندی سے نیچے نہیں جاتا نشیب سے فراز کی طرف بھی چلتا ہے۔ یہ ندی نالے اور دریا پانی کو ایک ویکیوم کے تحت پمپ کی طرح سمندر میں پہنچا رہے ہیں اور پانی کے نمکین ہونے کی حکمت یہ ہے کہ نمکین پانی میں تعفن پیدا نہیں ہوتا۔

                مرشد کامل کی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ انفس و آفاق کی نشانیوں پہ غور کرواتے کرواتے صانع اکبر کی پہچان کرا دیتا ہے۔ اس پہچان کے بعد اس کی جاں کاری اور پھر عرفان کے مرحلے طے کرواتا ہے۔ میرا شعور مجھے مراد کی تعلیم کردہ راہوں سے بھٹکانے کو یہ بتا رہا تھا کہ تم ان باتوں کو سراہو گے۔ ان پر غور کرو گے یا ان باتوں کے سنانے والے کو پیار کرو گے؟ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ہمیں اک مدھر سی مسکراہٹ کی چھاؤں میں لیتے ہوئے میرا مراد گویا ہوا:

                ’’آپ اپنی شعر و شاعری کریں۔‘‘

                اور اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔

                حاجی ادریس صاحب سے فرمایا:

                ’’آپ یہاں کا پروگرام کچھ ایسا رکھیں کہ میں جب چاہوں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا جاؤں اور جب چاہوں آپ لوگوں سے مل لیا کروں‘‘۔

                 یہ بات حضور نے تھکنے سے بچنے کے لئے کہی ہو گی۔ حاجی صاحب کے ذہن سے جانے کیا گزرا کہ فرمایا۔

                ’’جی ہاں۔ اب میں تھوڑا سا بد اخلاق ہو گیا ہوں۔‘‘

                یہ بات کچھ اتنی معصومیت اور بے ساختگی سے فرمائی کہ سب ہنس دیئے۔

                لوگ صبح ہی صبح جوق در جوق آنا شروع ہو گئے۔ میرے مراد کی مصروفیت کا دوسرا دور شروع ہو گیا۔ ممتاز علی اور میں گیٹ کے اندر بائیں ہاتھ بنے Muralکو دیکھ کر کاکڑہ ٹاؤن مراقبہ ہال کے ساتھیوں کی مصورانہ صلاحیتوں کی بات کر رہے تھے۔ حاجی صاحب آنے والے لوگوں کو مراقبہ ہال کے اندر بٹھا کر ہمارے پاس آ کھڑے ہوئے۔ ممتاز علی صاحب حیدر آباد مراقبہ ہال کے انچارج ہیں۔ انہیں مراقبہ ہال کی انتظامی ضرورتوں کے حوالے سے درکار صلاحیتوں کا مجھ سے کہیں زیادہ ادراک تھا۔ وہ حاجی صاحب کی منتظمانہ صلاحیتوں کا اعتراف کر رہے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں کام کے دوران ایک نظم اور ایک ضبط کا احساس ہو رہا تھا۔ کام جیسے خود بخود ہو رہے تھے۔ حاجی صاحب سے بار بار پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے ایک سسٹم بنا دیا تھا اور کام اس کے مطابق ہو رہے تھے۔ ہمیں چائے بھی بار بار مل رہی تھی۔

                جب مرشد کریم لوگوں سے مل رہے تھے، مریضوں کو دیکھ رہے تھے اور لوگوں کے مسئلے مسائل حل کر رہے تھے، ہم کاکڑہ ٹاؤن دیکھنے نکل کھڑے ہوئے۔ مراقبہ ہال سے ایک بھائی ہمراہ ہو لئے۔ ایک بازار۔ چند ایک بنکوں کی برانچیں۔ زیادہ تر لوگ ملک سے باہر ہیں۔ جو یہاں ہیں وہ کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا دھندہ کر رہے ہیں۔ جو صاحب مراقبہ ہال سے ہمارے ساتھ چلے راستے میں انہوں نے ہماری میزبانی کی۔ ہمیں بوتلیں پلائیں۔ پھر اپنے گھر لے گئے اپنے گھر لے جا کر انہوں نے ہمیں نہانے کی دعوت دی ہم نے جب دعوت کو کچھ زیادہ توجہ نہ دی تو اصرار شروع کر دیا۔

                ’’پانی گرم ہے آپ نہا لیں۔‘‘

                ممتاز علی جز بز ہونے لگے۔’’واہ یہ اچھی زبردستی ہے۔ نہا لیں واہ۔‘‘

                ’’اچھا آپ نہا لیں تو آپ کو چائے پلائی جائے۔‘‘ انہوں نے لالچ دیا۔

                ’’بھائی آپ چائے پلا دیں ہم وہیں مراقبہ ہال جا کر نہا لیں گے۔‘‘ ممتاز علی نے کہہ ہی دیا۔

                مگر وہ اپنی بات پر مصر ’’آپ نہا لیں۔‘‘

                اچھا خاصہ کھلا سا گھر تھا۔ ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ اندر جاتے پھر آ کر اطلاع دیتے:

                ’’میں نے چیک کر لیا ہے پانی گرم ہے۔‘‘

                ممتاز بھائی اور میں نے پہلے تو آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو ’’پہلے آپ‘‘ کہا پھرکھل کر کہنا شروع کر دیا کہ پہلے آپ نہا لیں تو میں دیکھوں گا۔ہمارے میزبان نے مداخلت کی ’’نہانا تو دونوں ہی کو ہے آپ بے شک باری باری نہائیں یا اکٹھے۔‘‘

                ’’اکٹھے؟‘‘ ممتاز علی نے سٹپٹا کر پوچھا۔

                میزبان نے کوئی اثر لئے بغیر کہا:

                ’’آپ دونوں کے لئے الگ الگ باتھ روم کھلوا دیئے ہیں۔‘‘

                ممتاز علی نے کندھے اچکائے اور نہانے چلے گئے۔ میں نے میزبان سے پوچھنا چاہا کہ وہ ہمارے نہانے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟ انہوں نے ہنس کر ٹال دیا۔ ممتاز علی آ گئے تو میں نہانے چلا گیا۔ واپس آیا تو ممتاز علی ہنس رہے تھے اور چائے کے ٹھنڈے ہونے پر خوشی کا اظہار فرما رہے تھے۔ میں نے میزبان کے سامنے مہمانی کا حق آسائش استعمال کرتے ہوئے پوچھا۔ آپ نے یہ چائے کا تکلف کیوں کیا؟

                فرمایا۔ حاجی صاحب نے کہا تھا۔’’مہمانوں کو گھر لے جا کر گرم پانی سے غسل کروا لاؤ۔‘‘

                میں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر آپ کی تواضح کو چائے بنوا دی۔‘‘

                ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ ممتاز علی نے پوچھا۔

                ’’ساتھ میں برج بھی بتا دیں۔‘‘ مجھ سے رہا نہ گیا۔

                چوہدری اختر صاحب نے نام بتا کر کہا۔’’برج؟ وہ کیوں؟ وہ تو مجھے معلوم نہیں۔‘‘

                ہم نے بات کو ہنسی میں اڑا دیا۔

                تو یہ بات تھی۔ وہ بے چارے حاجی صاحب کے حکم پر ہمیں نہلانے لائے تھے۔ لیکن اگر یہ ہمیں پہلے بتا دیتے تو ہم اتنی لیت و لعل تو نہ کرتے۔ میں نے ممتاز علی سے بہت بحث کی مگر یہی سمجھ میں آئی کہ وہ حیدر آباد اور پشاور سے آئے ہوئے ان معزز مہمانوں سے اپنی بات وضاحت سے نہ کہہ سکے جو ان کے مرشد کریم کے ہمراہ ہونے کے خصوصی اعزاز سے بھی مشرف تھے۔ لیکن ہم تو کاکڑہ ٹاؤن دیکھنے نکلے تھے یہ نہانا تو ہمارے شیڈول میں نہ تھا۔ ممتاز علی بہت حوصلے والے آدمی ہیں انہیں میرا اس طرح بار بار نہانے پر بحث کرنا بھی برا نہیں لگ رہا تھا بلکہ وہ تو الٹا لطف لے رہے تھے۔

                ’’پانی واقعی گرم تھا۔‘‘

                ’’نہانے کا لطف آگیا۔‘‘

                ’’چائے البتہ ٹھنڈی تھی۔‘‘

                ’’وہ تو آپ نے دیر کر دی۔‘‘

                ’’تو آپ پہلے چائے پلا دیتے نا۔‘‘

                ’’نہائے بغیر چائے……‘‘

                میزبان کی سمجھ کی داد دیتے دیتے ہم اپنی ناسمجھی کو کوسنے لگ گئے اور پھر حاجی صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کا تجزیہ کرنے لگ گئے۔

                ’’ممتاز بھائی۔ یہاں کہیں چنار کے درخت نظر نہیں آ رہے، کیا یہ واقعی کشمیر ہے؟‘‘

                میں رہ نہ سکا۔ میرے اندر کشمیر کی جو تصویر تھی یہ کاکڑہ ٹاؤن تو اس سے بالکل بھی مطابقت نہ رکھتا تھا۔

                ’’اور تو اور یہاں تو چیڑھ کے بھی درخت نہیں۔‘‘

                ممتاز علی ہنس دیئے:

                ’’تو آپ اپنی تصویروں کی تلاش میں ہیں۔‘‘

                انہوں نے بڑی سادگی سے پوچھا۔ میں نے سوچا بات توٹھیک ہی ہے جو سامنے ہے اسے تو دیکھ۔ جو دیکھنا چاہتے ہو جب دکھانے والا دکھائے گا وہ بھی دیکھ لینا۔

                دوپہر کا کھانا کھا کر آرام کیا گیا۔

                شام کو مراقبہ ہال میں……مغرب سے قدرے پہلے……مرشد کریم باہر آئے اور باہر آ کر لان میں بیٹھ گئے۔ وہاں جتنے بھی لوگ تھے سب آ کر حضور کے گرد جمع ہو گئے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔