Topics
ایک اور بات یہ فرمائی:
’’اگر ہم منصور حلاج کے وقت میں ہوتے تو اس سے ایک سوال پوچھتے کہ تم حق ہو تو کیا
خالق بھی ہو یا مخلوق۔ ان کو کوئی یہ بات سمجھا دیتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔
مانا انسان قرب سے سرفراز ہو تو اللہ کی صفات اس میں منتقل ہو جاتی ہیں مگر اس سے
آدمی خدا تو نہیں بن جاتا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھ کر اور کون ہو گا
مگر انہوں نے تو ایسی کوئی بات نہ کہی۔ ہاں! اللہ نے کہا۔ ہم نے انہیں اپنے اتنا
قریب کیا کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ منصور کو اپنے مخلوق ہونے
اور پیدائش کے بارے میں سوچ لینا چاہئے تھا۔ وہ یہ کہہ لیتے میں اللہ جیسا ہو گیا
ہوں۔ بایزید بسطامی اور بڑے پیر صاحب ان سے کہیں زیادہ آگے کی منزل پر تھے۔ انہوں
نے تو ایسا کچھ نہیں فرمایا۔‘‘
’’انا الحق‘‘ کے حوالے سے میں نے سینکڑوں مباحث سنے اور پڑھے تھے مگر اس طرح کی
مدلل، دو ٹوک اور سیدھی سچی رائے نہ کبھی سنی تھی اور نہ ہی کبھی پڑھی۔ اس روز
منصور حلاجؒ کے ماورائی سے تصور میں سے جیسے ساری ہوا نکال کر رکھ دی گئی ہو۔ مجھے
ایک عجیب سا احساس ہوا جیسے میرے فہم اور شعور کا دائرہ کچھ پھیل سا گیا ہو۔ اتنے
میں حاجی ادریس صاحب نے متوجہ کیا کہ کچھ مریض خواتین آئی ہیں۔ ابا نے
’’ہاں!ہاں!کیوں نہیں!‘‘ کہہ کر اس طرف کا رخ کیا، جدھر خواتین کے لئے بندوبست تھا۔
ہم آپس میں گفتگو کرتے رہے پھر سیر کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ممتاز علی صاحب نے
تجویز کیا کہ آج اس طرف چلیں۔ کچے راستوں کی پگڈنڈی سے گزر کر ہم نیچے سڑک پر
اترے۔ سڑک کے کنارے بے فکری سے ٹہلتے ہوئے عجیب فراغت کا سا احساس تھا۔ ہم تھوڑی
دور گئے تو ایک ہوٹل پہ نظر پڑی۔ فاروق صاحب نے جو افسر مہمانداری کے فرائض سر
انجام دے رہے تھے، ہوٹل والے کو تین کپ چائے پلانے کا حکم صادر کیا۔ بادلوں کو دیکھ
رہے تھے کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ ہم نے درخت کے نیچے کرسیوں کو چھوڑ
کر برآمدے میں جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ بوندا باندی ختم ہو گئی۔ کھل کر بارش
ہو جاتی تو لطف آ جاتا۔ چائے پی۔ دودھ میں چائے ڈال کر دودھ پتی بنائی گئی تھی۔
اس چائے سے کسی طور طلب پوری نہیں ہو رہی تھی۔
کافی دیر تک سڑک پر ٹہلنے کے بعد مراقبہ ہال واپس آئے۔ مرشد کریم لوگوں میں
گھرے ہوئے ان کے مسائل پر مشورے اور علاج تجویز کر رہے تھے۔ ہر آنے والے کی دلجوئی،
ہر بیمار کی شفا کی فکر، ہر مریض کی صحت یابی کے لئے کوشاں، ہر پریشاں حال کے لئے
دعاگو۔ ایک بار کراچی مراقبہ ہال میں ایک صاحب نے کہا کہ میرے لئے دعا کریں۔ میرے
مراد نے کہا:
’’جی! اچھا۔‘‘
ان کی تسلی نہ ہوئی۔ انہوں نے جب کچھ دیر بعد تیسری بار اپنی بات دہرائی تو
حضور نے کہا:
’’دیکھیں صاحب! میرا کام ہے ڈاک پہنچانا۔ میں تو ڈاکیا ہوں اور میں اپنا کام پوری
دیانت داری سے کر دیتا ہوں۔ آگے وہ کیا جواب دیتے ہیں یہ آپ کا اور ان کا معاملہ
ہے۔‘‘
ہم کچھ ادھر ادھر ٹہلتے رہے پھر باورچی خانے میں جا بیٹھے۔ باورچی خانے میں بیٹھے
کھانا پکتے دیکھتے رہے۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی ہوتی رہیں۔ کسی کو ہمارا باورچی خانے
میں آنا ناگوار نہیں گزرا۔ کوئی جز بز نہیں ہوا۔ کسی نے کام میں ہرج ہونے کا
تذکرہ نہیں کیا بلکہ الٹا ہماری پذیرائی کی۔ ہمارے لئے جگہ بنائی۔ پھر چائے کا
پوچھا گیا بلکہ اصرار کر کے جس طرح کی چائے پینا چاہ رہے تھے بنا کر پلائی گئی۔
ممتاز بھائی نے کہا اس بات سے اندازہ کر لیں کہ حاجی ادریس صاحب کا ذہن کیسا ہے؟ میں
نے خیال کیا کہ حاجی ادریس صاحب میں یہ بات ہے کہ وہ ہر بات مرشد کریم پر چھوڑتے ہیں۔
اپنی عقل، اپنے ذہن کا زیادہ استعمال نہیں کرتے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔