Topics

مٹھاس اور شجر ممنوعہ


                کسی نے مٹھائی پیش کی تو فرمایا:

                ’’شجر ممنوعہ یہ مٹھاس ہی تو ہے۔ انسان کی پوری مادی زندگی مٹھاس پر ہی تو قائم ہے۔ آکسیجن بھی تو مٹھاس ہی ہے۔ درختوں میں جو بھی عمل ہو رہا ہے وہ بھی مٹھاس ہی ہے۔ جب انسان کومہ میں جاتا ہے تو اس کو آکسیجن اس لئے دی جاتی ہے کہ مٹھاس کی کمی فوراً پوری کی جا سکے۔ مٹھاس ترک کرنے سے انسان کے دیکھنے کی سکت بڑھ جاتی ہے۔‘‘

                ایک صاحب کا واقعہ سنایا کہ وہ انہیں گوجرانوالہ میں ملے تھے۔ وہ بیس سال تک ہندوؤں اور تبتی مالاؤں اور یوگیوں کے چکر میں رہے۔ آخر میں ان کی یہ حالت تھی کہ نہ وہ شور برداشت کر سکتے تھے نہ ہی کچھ کھا پی سکتے تھے۔ ایک خاص قسم کا چاول کھاتے تھے اور اس کو کھانے کے بعد انہیں بھوک بھی نہیں لگتی تھی۔

                فرمایا:

                ’’میں نے ان سے پوچھا کہ کچھ کامیابی بھی ہوئی یا نہیں؟وہ رو پڑے اور بتایا کبھی کبھار ہلکی سی روشنی نظر آتی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘

                اسی نشست میں فرمایا:

                ’’علامہ عنایت اللہ مشرقیؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مولویوں کو ختم کر دینا چاہئے لیکن اس تمام تر مخالفانہ سوچ کے باوجود بھی انہوں نے اسی کتاب میں اس بات کو تسلیم کیا کہ نماز اور اذان کا سسٹم انہی مولویوں کے دم قدم سے قائم و دائم ہے۔‘‘

                پھر ان کی تحریک اور ان کی ذات کے حوالے سے کئی باتیں ارشاد فرمائیں کہ وہ ڈسپلن کے بہت سخت تھے اور یہ بھی بتایا کہ ایک بار مجھے ان کے جلسے میں جو کراچی میں ہوا تھا شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس جلسے میں انہوں نے کہا کہ میں چالیس سال سے قبرستان میں اذان دے رہا ہوں اور کوئی مردہ زندہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جو کچھ کہتا رہا ہوں اس پر خود عمل نہیں کیا۔

                فرمایا:

                ’’یہ بہت بڑی اور بڑائی کی بات ہے کہ اتنے بڑے مجمع میں آدمی اپنی غلطی تسلیم کرے اور اس کا اظہار بھی کر دے۔‘‘

                پھر ایک واقعہ اور بھی سنایا۔ فرمایا:

                ’’ایک گاؤں میں ایک مولوی گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ لوگ محض نام ہی کے مسلمان ہیں۔ اس نے انہیں نماز وغیرہ پر تو لگا لیا۔ رمضان قریب آیا تو مولوی صاحب نے لوگوں کو کہا کہ رمضان آ رہا ہے آپ کو روزے رکھنا ہونگے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ روزے کیا ہوتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ دن بھر کھانا نہیں کھانا وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے پوچھا رمضان آئے گا کدھر سے؟ مولوی صاحب اس کا کیا جواب دیتے۔ کہہ دیا۔ مغرب سے۔ مولوی صاحب آگے چلے گئے۔ وہاں اس گاؤں میں ایک روز ایک اونٹ آیا۔ دیہاتیوں نے اس سے پہلے کبھی اونٹ دیکھا نہ تھا۔ انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا۔ ایک نے کہا ہو نہ ہو یہ رمضان ہے۔ انہوں نے اسے مار کھایا۔ مولوی صاحب واپس آئے۔ انہیں کھاتے پیتے دیکھ کر پوچھا۔ تم لوگوں نے روزہ نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا ہم نے رمضان کو ہی مار کر کھا لیا ہے اب وہ ہمیں کھانے سے کیسے روک سکتا ہے؟‘‘

                ایک صاحب نے اخروٹ کی لکڑی کی سیاہ رنگ کی کشمیری طرز کی لاٹھی تحفتاً دی۔ لے کر دیکھا۔ کہا۔ اچھی بنی ہوئی ہے۔ پھر فرمایا:

                ’’ابھی تو میں اتنا بوڑھا نہیں ہوا۔ آپ نے مجھے اتنا بوڑھا سمجھا کہ مجھے لاٹھی کی ضرورت آن پڑے۔‘‘

                انہوں نے کہا کہ لوگ سہارے کے لئے رکھتے ہیں۔ فرمایا:

                ’’سہاروں سے تو یقین متاثر ہوتا ہے۔ سہارے نہیں لینے چاہئیں۔‘‘

                ان صاحب نے کہا کہ آپ دعا کریں۔

                فرمایا:’’عمل کے بغیر محض دعاؤں کے سہارے نہیں بیٹھے رہنا چاہئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدر اور خندق کے مواقع پر اپنا عمل پورا کرنے کے بعد ہی دعا فرمائی تھی۔‘‘

                مغرب کی نماز تک یہ محفل رہی۔ فیاض صاحب اس دوران نیم دراز لیٹے مرشد کریم کو دیکھتے رہے۔ شام کو نماز کے بعد انہیں رخصت کرتے ہوئے حضور نے انہیں کہا کہ آپ ہمت کریں۔ دل چھوٹا نہ کریں اور وہ قدم قدم چل کر گاڑی تک گئے ان کے جانے کے بعد آپ نے تبصرہ کیا یہ ہمت ہار بیٹھے ہیں اور کوئی مسئلہ نہیں۔

                شام کو حاجی ادریس صاحب مرشد کریم کو منگلا کی جھیل دکھانے لے گئے۔ جھیل کی جگہ ایک چٹیل میدان دیکھ کر فرمایا:

                ’’شاید مجھے پانی کی یہی صورت حال دیکھنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔‘‘

                وہاں دیکھا کہ جھیل کی تہہ کی زمین پر لوگوں نے گندم کاشت کی ہوئی ہے اور آج کل وہ اس کی کٹائی اور اس کے سنبھالنے کے بندوبست کر رہے ہیں۔ اس خشک سالی کے حوالے سے کسی نے کہا دعا کریں کہ بارشیں ہوں۔ اس پر وہاں موجود ایک صاحب بول اٹھے۔:

                ’’آج کل بارشیں ہوئیں تو گندم بھیگ جائے گی۔‘‘

                اس پر میرے مراد نے میری طرف دیکھا اور بڑے ہی معنی خیز انداز میں دہرایا:

                ’’ان کی گندم بھیگ جائے گی۔‘‘

                اور وہاں سے ہٹ کر چل دیئے۔ جب انسان انفرادی سوچوں کی حدود میں مقید ہو جائے تو اسے دوسروں کی سیرابی سے زیادہ اپنی گندم کے بھیگنے کی فکر رہتی ہے۔

                بات چیڑھ اور چنار کے درختوں سے ہوتے ہوئے اخروٹ کے درختوں تک آ گئی تو فرمایا:

                ’’سب سے کم کھایا جانے والا ڈرائی فروٹ اخروٹ ہے۔ اخروٹ کھانے سے سر کے بال تک اڑ جاتے ہیں۔‘‘

                چونکہ بالوں کا تعلق خون کی کثافت سے ہوتا ہے اس لئے پوچھا کہ حضور کیا اس سے کثافت کم ہو جاتی ہے تو بتایا کہ نہیں بلکہ یہ تو کثافت میں اتنا اضافہ دیتا ہے کہ مسام بند ہو جاتے ہیں اور اس سبب بال جھڑ جاتے ہیں۔ البتہ یہ دماغ کے لئے مفید بتایا جاتا ہے۔

                پھر گفتگو موسم کے حوالے سے ہونے لگی۔ کشمیر میں آ کر بھی حبس کی کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

                ’’یہاں ہوا بوجھل ہے۔ اس لئے رکی ہوئی ہے۔‘‘

                پھر فرمایا:

                ’’گرمی میں کام نہیں ہو پاتے۔ ایجادات بھی سرد ممالک میں ہی ہوتی ہیں۔ آپ کوئی ایجاد بتائیں جو گرم ممالک سے تعلق رکھتی ہو۔‘‘

                رات کو آپ کاکڑہ ٹاؤن میں دو چار گھروں میں گئے۔ ہم وہیں مراقبہ ہال میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ حاجی صاحب اور ایک دو دوست ہمراہ گئے تھے۔ ہم دیر تک منتظر رہے پھر مراقبہ ہال سے نکل کر بازار کی طرف جا رہے تھے کہ سامنے سے اپنے مراد کو حاجی صاحب کے ہمراہ آتے دیکھا۔ آتے ہوئے کسی مولوی صاحب کا قصہ سنا رہے تھے۔ بازار سے مراقبہ ہال تک کی گلی میں گزرتے ہوئے جو قصہ وہ سنا رہے تھے یہ تھا کہ:

                ’’ایک مولوی صاحب تھے جب کہیں کوئی مر جاتایہ اس کے ہاں پہنچ جاتے۔ اپنے ساتھ دو گدھے بھی لے جایا کرتے۔ وہاں پہنچ کر مرحوم کے لواحقین سے کہتے، خدا بخشے آثار سے مرحوم کوئی اچھے آدمی نہیں لگتے، نہ جانے آگے ان کا کیا حشر ہو رہا ہو گا، اگر چاہو تو میں مرحوم کے گناہ اپنے سر لے لوں۔ لواحقین مرحوم کی ہمدردی میں فوراً راضی ہو جاتے، یہ کہتے ۔ میں پرائے گناہ کی آگ میں جلوں گا آپ مجھے کیا دیں گے؟ خیر جی کسی نہ کسی طرح سودا ہو جاتا اور وہ گدھوں پر اناج اور دیگر اسباب لاد کر چل دیتے۔‘‘

                میں یہ بات سن  کر بہت حیران ہوا اور سوچا کہ مولوی صاحب تو مارے گئے بے چارے۔ نہ جانے کیسے کیسے لوگوں کے گناہ انہوں نے اپنے سر لئے ہونگے؟ ان کا وہاں کیا حشر ہو رہا ہو گا؟ بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا:

                ’’حضور یہ مولوی صاحب نے کیا کیا؟ وہ بے چارے تو مارے گئے ہوں گے، دنیا کے لالچ میں۔‘‘

                فرمایا:

                ’’کیا کیا؟ بھئی ایک کے اعمال کسی دوسرے کے گلے پڑ ہی نہیں سکتے۔ کوئی کسی کے گناہوں کے لئے جواب دہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تو اندھیر نگری ہو جائے گی اگر یہ مان لیا جائے۔ مولوی صاحب تو لوگوں کو بے وقوف بناتے تھے۔‘‘

                میں تو یہ جواب سن کر بالکل ہی چکرا کر رہ گیا۔ عرض کی:

                ’’لیکن حضور انہیں لوگوں کو بے وقوف بنانے کی سزا تو ملے گی نا؟‘‘

                فرمایا: ’’بے وقوف بننے کی سزا تو ملی لوگوں کو۔ بے وقوف بنانے کی کیا سزا؟ وہ کون سا یہ دولت ساتھ لے گئے۔‘‘

                مرشد کریم کس کس طرح ہماری سوچوں کو درست فرماتے ہیں۔ کس طرح ہماری طرز فکر میں موجود خام کاریوں کی نشاندہی فرماتے، انہیں دور فرماتے۔ باتوں باتوں میں کیسی کیسی حکمتیں تعلیم فرماتے۔ کس طرح غیر محسوس طریقے سے ہماری تربیت فرماتے۔ میرا سر عجز و نیاز سے بارگاہ رب العالمین میں جھک گیا کہ اس نے مرشد کامل کی صحبت سے سرفراز کیا اور ان کی شفقتوں کے چند چھینٹے مجھ ناچیز کا بھی مقدر بن گئے۔

                اگلی صبح بھی گذشتہ صبح کشمیر سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ مراقبہ کے بعد ناشتہ اور ناشتے کے دوران مرشد کریم کی طرف سے افکار کے موتی تواضح کے لئے موجود۔

                آپ نے دعا پڑھی۔ ربنا اتنا فی الدنیا……الخ اور اس کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:

                ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں یہ بات طے فرما دی ہے کہ اگر دنیا اور آخرت میں حسن اور توازن نہیں تو آخرت میں آگ سے نجات نہیں۔‘‘

                نہ جانے کہاں سے ایک بھولا بسرا سوال سطح ذہن پر نمودار ہوا اور بارگاہ مراد میں پیش کر دیا۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔