Topics

صنعت کو دیکھ کر صانع کی پہچان


                مرشد کریم وہاں بنے ہوئے ایک کٹیا نما کمرے کو دیکھ رہے تھے۔ وہاں کوئلے سے دیواروں پر مختلف نام لکھے ہوئے تھے۔ ممتاز علی وہ نام پڑھ رہے تھے۔ میں مرشد کریم کے قریب کھڑا تھا۔ جس درخت کے نیچے حضور کھڑے تھے اس پر سیاہ رنگ کے توت لگے ہوئے تھے، میں نے چند ایک توت توڑے اور ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مراد کے حضور پیش کئے۔ انہوں نے ایک دانہ اٹھا کر کھایا اور باقی مجھے خود کھانے کو کہا۔ میں نے جونہی یہ توت منہ میں ڈالے مجھے ایک سوال سوجھا، میں نے عرض کی:

                ’’کسی صنعت کو دیکھ کر ہم صانع کو کیونکر پہچان سکتے ہیں یعنی صفت کو دیکھ کر ہمیں زیادہ سے زیادہ صانع کی کاریگری کا اندازہ ہی ہو گا یہ اس کی پہچان تو نہ ہوئی۔‘‘

                اس سوال کے جواب میں مرشد نے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی۔ فرمایا:

                ’’اپنی پہچان کا طریقہ ہی تو بتانے کے لئے پیغمبر بھیجے گئے، پیغمبروں نے کہا مخلوق کا خالق سے رشتہ استوار ہونا چاہئے۔ تمام پیغمبروں نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اللہ کا محبوبﷺ آئے گا جو اس بات کو واشگاف کر دے گا کہ اللہ کو کیسے پہچانا جائے معراج پر حضورﷺ نے جو کچھ دیکھا۔ خود اللہ نے کہا غلط نہیں دیکھا۔ ہم ایسے نصیب والے ہیں کہ ہمارے سر پر اس بندے کا ہاتھ ہے۔ جس کے ساتھ اللہ نے راز و نیاز کئے۔‘‘

                میرے مراد کو موتی بکھیرتے سن کر ممتاز علی بھی قریب آ گئے۔ حضور نے اپنے ایک دوست کا واقعہ سنایا کہ کس طرح انہوں نے اصرار کر کے انہیں خود پر تصرف کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اور جب وہ تصرف کرنے بیٹھے تو حضور قلندر بابا اولیاء نے انہیں منع کر دیا۔

                ’’اس لئے کہ اگر کوئی آدمی شہد لینے جائے تو اسے پہلے برتن کو تیار کرنا چاہئے۔ برتن کے بغیر وہ شہد کو رکھے گا کہاں؟‘‘

                پھر فرمایا:’’خود دلچسپی لئے بغیر محض دعا نظر اور عطا کے چکر میں نہیں رہنا چاہئے خود کو تیار کرنے میں دلچسپی لیں۔‘‘

                بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ حاجی صاحب نے اطلاع دی کہ گاڑیاں پہنچ گئی ہیں۔ ہم دوبارہ گاڑی  میں بیٹھے۔ میں ابھی ابھی ہونے والی گفتگو کے معنی اور مفاہیم کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرنے میں لگا ہوا تھا۔ گاڑی ایک لگی بندھی رفتار سے ہمیں جھولا جھلاتی چلی جا رہی تھی۔ میری نظروں کے سامنے سے درخت گزر رہے تھے۔ چھوٹے بڑے، سبھی طرح کے درخت۔ ہوا بند تھی۔ درختوں کے پتے ساکن اور اداس سے لگے۔ میں نے دوبارہ دیکھا۔ پتے خشک سالی کے ہاتھوں مرجھائے ہوئے سے لگے۔ میرے جی میں آیا میں اپنے مراد سے پوچھوں کہ ان درختوں کو اگر پانی نہ ملا اور یہ مر گئے تو کیا ہو گا؟ میں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے مراد کی طرف نظر کی وہ گاڑی کے جھولنے پر سو رہے تھے۔ گردن ایک کندھے کی طرف ڈھلکی دیکھ کر میں خاموش ہی رہا اور درختوں کو خاموش اور ساکن کھڑے دیکھتا رہا۔ میرے اندر ایک آواز سی گونجی۔ یہ درخت موت کو سامنے دکھ کر بھی پریشان نہیں ہوتے۔ چپ چاپ خود کو مرنے دیتے ہیں۔ پانی ملے یا نہ ملے، یہ دونوں طرح خوش ہیں۔ درخت تو درخت، ہر جانور، وہ پرندے ہوں چرندے ہوں یا درندے ہوں، جب انہیں پتہ چل جائے کہ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے تو وہ خاموشی سے اپنی جاں جان آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں۔ انہیں زندہ رہنے کا اتنا لپکا نہیں ہوتا جتنا انسانوں کو ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو مرنے سے بچنے کی آرزو میں موت کو ہی بھلا دیتا ہے۔

                ’’ہمیں ان درختوں کی مانند استقلال سے ہونے والی بات کا انتظار کرنا سیکھنا چاہئے۔‘‘

                میں نے انتہائی رسانیت سے سوچا کہ اب ہم انسان ہو کر مرنا بھی درختوں سے سیکھیں گے تو ہمارا شرف کہاں گیا؟ اسی آواز میں جواب ملا:

                ’’مرنا بھلا کر کیا تم نے شرف کھو نہیں دیا؟‘‘

                بے شک ہم نے مرنے سے پہلو تہی کی، تبھی تو ہمارے ہادی، ہمارے نبیﷺ، ہمارے آقا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے موتو قبل انتم موتا’’مرجاؤ مرنے سے پہلے‘‘ کہہ کر ہماری توجہ اس قانون کی طرف مبذول کروائی تھی کہ اگر تم مرنا سیکھ رکھو گے تو تمہارا شرف رہے گا ورنہ تم تو ان درختوں سے بھی گئے گذرے ہو۔ میں نے خود کو مرنے پر آمادہ کرنے کی بابت سوچا۔ بہت سوچا۔ مگر خود کو بہلاوہ دیتا رہا، جب موت آئے گی تو مرنا تو ہے ہی۔ اس سے پہلے تو میں چاہوں بھی تو مر نہیں سکتا۔ میں نے اپنے مراد کی طرف دیکھا۔ وہ راستے میں آنے والی ایک برساتی ندی میں رینگتے ہوئے پانی کو دیکھ رہے تھے، ایک دو عورتیں پانی سے اپنے گھڑے بھر رہی تھیں۔

                ایک گاڑی ہم سے آگے نکل گئی۔ وہ راستے میں آنے والے ایک قصبے میں کھڑی تھی۔ ہم بھی رکے۔ وہاں اتر کر ادھر ادھر گھومے۔ ایک دو دکانوں میں گئے۔ اقبال قریشی صاحب نے بوتلیں اور بسکٹ خریدے۔ ممتاز علی صاحب نے چیونگم خریدے اور سب کو ایک ایک چیونگم دی۔ اس گاؤں کا نام شاید پونا تھا۔

                وہاں سے پیر گلی تک راستہ میدانی سا تھا۔ ہم اتنا سفر کر کے کچھ تھکن سی محسوس کرنے لگے تھے۔ اتنے میں ایک گھر پر نظر پڑی۔ عجیب زرق برق رنگوں میں سجا ہوا گھر تھا۔ دور سے نظر آ جاتا تھا۔ لگتا تھا بنانے والے نے خوب دل لگا کر بہت سا مال خرچ کر کے دنیا بھر کے رنگ اس پہ انڈیل دیئے تھے۔ ہم سبھی اس گھر کو دیکھ رہے تھے۔ اس ویرانے میں سڑک سے ڈیڑھ دو سو گز دور یہ گھر واقعی کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔

                مرشد کریم نے اس پر تبصرہ کیا:

                ’’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔‘‘

                سماہنی تک راستے میں کوئی خاص بات کوئی خاص واقعہ نہ ہوا۔ چند ایک عورتیں نظر آئیں۔ وہ دور سے نظر آ رہی تھیں۔ اتنی ہی دور ایک دو آدمی بھی کھڑے تھے مگر وہ اتنے واضح نظر نہیں آ رہے تھے۔ میں نے اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ ان عورتوں کو میں نے پہلے کیوں دیکھا اور یہ آدمی مجھے پہلے کیوں نظر نہیں آئے؟ مجھے کہیں پڑھی ہوئی بات یاد آئی کہ عورت سرخ لباس اس لئے پہنتی ہے کہ یہ رنگ دور تک نظر آتا ہے۔ شاید یہ بات ممتاز مفتی کے کسی افسانے یا تحریر کردہ مضمون میں پڑھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ واقعی عورتوں کے لباس کے رنگ میں سرخی کا عنصر نمایاں تھا اور مردوں کے لباس یا تو خاکی رنگ کے تھے اور یا پھر خاکی سے ملتے جلتے۔ سفید بھی کم ہی تھے۔ میں باقی راستے میں دور دور تک یہی دیکھتا رہا، کبھی مجھے بل فائٹنگ میں سرخ رنگ کے رومال کا خیال آتا اور کبھی دلہن کے سرخ جوڑے کا۔ سماہنی سے گزر کر ہم سبز پیر پہنچ گئے۔ وہاں فوجی کھڑے تھے۔ حاجی صاحب نے کہا اس سے آگے جانا مناسب نہیں ہو گا۔ ہم یہیں پکنک منا لیتے ہیں۔ مرشد کریم نے فرمایا:

                ’’کسی چشمے کے پاس ہو تو بہتر رہے گا۔‘‘

                 انہوں نے کہا۔’’جی ہاں! وہ رہا پانی کا چشمہ۔‘‘

                ہم سب نے ادھر ادھر دیکھا۔ ہمیں کہیں کوئی چشمہ نظر نہیں آیا۔ سڑک کے بائیں طرف ایک چھوٹی سی نالی البتہ دیکھی۔ سڑک آگے جا کر مڑتی اور اس نالی نما ندی سے گزرتی ہوئی پہاڑی پر چڑھ کر دوسری طرف غائب ہوتی نظر آ رہی تھی۔ ممتاز علی صاحب نے ندی کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا:

                ’’کیا یہ ہے چشمہ؟‘‘

                اقبال قریشی اور فاروق بیگ صاحب نے ترحم آمیز نظروں سے ممتاز علی کی طرف دیکھا کہ انہیں ندی اور چشمے کا بھی فرق معلوم نہیں۔ حاجی صاحب نے سڑک کے کنارے ندی کے مخالف سمت اینٹوں کی بنی ہوئی ایک کھولی کی طرف اشارہ کیا:

                ’’یہ ہے چشمہ۔‘‘

                ہم نے ایسا چشمہ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ اسی چشمے سے وہ پانی رس رہا تھا جو ندی میں جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جس زمانے میں سڑک کی تعمیر ہوئی تھی سڑک بنانے والے مزدوروں نے اپنے پینے کے لئے اس کاریز نما چشمے کے گرد پتھر چن کر اس کے پانی کو روکا اور اس کو پتوں اور حشرات سے محفوظ کرنے کو اس کے اوپر ایک چبوترہ سا بنا دیا تھا۔

                اس چشمے سے اوک بھر کر پانی پیا حالانکہ وہاں ایک کٹورہ نما پیالہ بھی پڑا تھا۔ پھر ہم پہاڑ پر چڑھ کر سڑک سے سو ڈیڑھ سو گز دور چلے گئے۔ حضور کے لئے ایک چادر بچھا دی گئی۔ وہاں سے سڑک کا منظر نظر آ رہا تھا۔ ایک بورڈ پر نظر پڑی۔ M.T.Uسب سے پوچھا۔ کسی نے نہ بتایا۔ بعد میں وہاں ایک فوجی آ گیا۔ ہمیں کھانا پکاتے دیکھ کر تحقیق احوال کے لئے آیا ہو گا۔ پہلے تو اس نے ہمیں وہاں سے ہٹنے کو کہا مگر جب فاروق بیگ اور دیگر ساتھیوں نے وہاں کے لوکل لوگوں کے نام لئے تو وہ مرعوب ہو کر کہنے لگا:

                ’’میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیں۔‘‘

                میں نے اس سے پوچھا:’’یہ M.T.Uکیا ہے؟‘‘

                کہنے لگا۔’’میول ٹریننک یونٹ۔ یعنی یہاں خچروں کو تربیت دی جاتی ہے، ان پہاڑوں پر سامان، اسلحہ اور گولہ بارود کی نقل و حرکت انہی خچروں کے ذریعے ہوتی ہے۔‘‘

                ہم وہاں بیٹھے کھانے کا انتظام ہوتے دیکھ رہے تھے۔ جنگل میں منگل کا سماں ہو رہا تھا۔ مرغیاں دھل رہی ہیں۔ آگ جلائی جا رہی ہے۔ چٹنی بنائی جا رہی ہے۔ کوئی بالٹی لئے نیچے اسی چشمہ نما سے پانی بھر کر لا رہا ہے۔ اتنے میں خچروں کی ایک ٹولی وہاں سے گزری۔ سب کے سب خچر ایک جیسے سرمئی رنگ کے قد کاٹھ میں بھی ایک جتنے۔ دوسری ٹولی بھورے رنگ کے خچروں کی گزری۔ کچھ دیر بعد وہاں سے چتکبرے خچروں کی ایک ٹکری گزری۔ ہر ٹکری میں بیس بائیس خچر تھے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔