Topics

نوکروڑمیل دور سورج


                صبح نماز فجر کے بعد مراقبہ بھی باجماعت ہوا۔ حاجی ادریس صاحب کی میزبانی کا آغاز بھی فوراً ہی ہو گیا۔ چائے آئی، ناشتہ آیا۔ ناشتے میں انڈے شامل دیکھ کر میرا مراد گویا ہوا۔ ’’انڈہ مکمل کولسٹرول ہے۔ اس میں پوری مرغی چھپی ہوتی ہے پروں اور پنجوں سمیت۔‘‘ اب میں انڈے کو دیکھتا ہوں تو سالم چوزہ بیٹھا ہوا نظر آرہا ہے۔ میں نے اس چوزے کو پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو میرا ہاتھ نرم نرم پروں سے ٹکرانے کی بجائے انڈے کے سخت چھلکے سے ٹکرایا۔ جیسے خواب دیکھتے ہوئے آنکھ کھل جائے تو عجیب سا لگتا ہے۔ میں نے درزیدہ نگاہوں سے اپنے مراد کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ایک شان تغافل سے چائے کی پیالی اٹھائی اور چسکی لی۔ پیالی واپس پرچ میں رکھی اور کہا ’’کراچی میں چائے میں دودھ ڈالا جاتا ہے یہاں دودھ میں چائے ڈالتے ہیں۔‘‘ میں نے دوبارہ انڈے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ وہی انڈے کا انڈا۔ چنانچہ ایک بار پھر کوشش کی۔ نتیجہ یہ کہ میں تین انڈے کھا گیا۔ ناشتے کے بعد دسترخوان لپیٹا گیا۔

                 فرمایا۔’’انسانی آنکھ سورج کو دیکھتی ہے۔ سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل بتایا جاتا ہے۔ اس کا صاف اور سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ انسانی آنکھ کو نو کروڑ میل بلکہ اس سے بھی زیادہ فاصلے تک دیکھنے کی صلاحیت حاصل ہے لیکن انسان نے خود کو محض 25/24فٹ تک محدود کیا ہوا ہے۔ اسی طرح چاند بھی دو ڈھائی لاکھ میل دور ہونے کے باوجود نظر آ جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے نوری سالوں کے فاصلے پر دیکھنے کے لئے تو دوربین بنا لی ہے مگر کوئی ایسی دوربین نہیں بنا سکے جس سے فرشتے یا جن نظر آ سکیں۔ دراصل انسان کے دیکھنے کی حد بہت زیادہ ہے مگر یہ نہ تو اس سے واقف ہے اور نہ ہی اس سے کام لیتا ہے۔‘‘

                ہمیں ان باتوں پر غور کرنے کا کہہ کر آپ کمرے سے باہر نکل گئے۔ باہر سورج طلوع ہو رہا تھا۔ دور تک چھوٹی بڑی پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ کشمیر کو یوں صبح کے وقت دیکھنا میرا خواب تھا جو آج پورا ہو رہا تھا۔ مراقبہ ہال ایک پہاڑی ٹیلے کے اوپر بنا ہوا ہے۔ حاجی ادریس صاحب بتا رہے تھے کہ عظیمی بھائیوں نے پہاڑ کاٹ کر یہ جگہ بنائی ہے۔ انسانی ارادے کے سامنے پہاڑ بھی نہیں ٹک سکتے۔ یہ بات یوں مشاہدے میں آ گئی۔ مراقبہ ہال سے نیچے سڑک نیم دائرہ بناتی ہوئی گزر رہی ہے۔ مراقبہ ہال کا راستہ کاکڑہ ٹاؤن کے اندر سے ہو کر آتا ہے۔

                مراقبہ ہال کے ایک طرف کھیت نما زمین ہے اور دوسری طرف کچھ گھر۔ جس طرف گیٹ ہے وہاں سے ایک پہاڑی نیچے کی طرف ہے۔ ایک سیدھی دیوار کھیت سے گھروں تک بنی ہوئی ہے۔ باہر سے یہ دیوار آٹھ دس فٹ بلند ہو گی اندر سے یہ مراقبہ ہال کی منڈیر ہے۔ سڑک مراقبہ ہال کی سطح سے 80/70فٹ نیچے ہے لیکن ساتھ والا داہنی طرف کا کھیت مراقبہ ہال کی زمین سے ایک دو فٹ بلند ہے۔ مراقبہ ہال میں ایک کمرہ کے باہر مراقبہ ہال اور دوسرے کے باہر ’’حضور ابا جی کا کمرہ‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں۔ ابا کے کمرے کی ایک کھڑکی کھیت کی طرف اور دوسری گیٹ کی جانب باورچی خانہ ہال کے ساتھ ابا جی والے کمرے کے مخالف سمت پیوست ہے۔ گھروں کی سمت پانچ چھ سیڑھیاں چڑھ کر وضو خانہ اور منڈیر والی دیوار کے ساتھ باتھ روم اور ٹوائیلٹ۔ حاجی صاحب مرشد کریم کو ایک ایک چیز دکھا رہے تھے۔ ٹوائیلٹ کو دیکھ کر آپ نے کہا کہ گٹر کے پائپ کے ساتھ آؤٹ لیٹ پائپ لگوائیں ورنہ بدبو ناقابل برداشت رہے گی۔ ان کی باریک بینی سے کوئی بات کہاں چھپی رہ سکتی ہے؟ حاجی صاحب نے اس خامی کو درست کرنے کا اقرار کیا۔

                مراقبہ ہال میں داخل ہوں تو سڑک کی طرف بلکہ سڑک کے اس پار منگلا جھیل کی زمین نظر آتی ہے۔ جس طرف گیٹ ہے ادھر سے پہاڑیوں کا ایک چھوٹا سا سلسلہ نظر آتا ہے۔ پہاڑیوں پر ایسے ویسے کوئی درخت نہ تھے جو کشمیر کے تصور کے ساتھ میں نے وابستہ کئے ہوئے تھے۔ جھڑبیریوں، کیکر اور پہاڑی جھاریوں کے علاوہ کہیں کہیں ایک دو درخت۔ میرے مراد نے یقیناً میری مایوسی دیکھ لی ہو گی جبھی تو فرمایا۔’’حاجی صاحب تو کشمیر کے قدموں میں پڑے ہیں۔‘‘ اور آ کر منڈیر پر بیٹھ گئے۔ ہم نے نیچے زمین پر نیم دائرہ بنا کر مرشد کو اپنی نگاہوں کے حصار میں لینے کی سعی ناتمام کی۔ انہوں نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ ’’سبحان اللہ! کیا خوبصورت سماں ہے۔‘‘ کہہ کر انہوں نے میری توجہ زمین کی جھاڑیوں سے مشرق میں ابھرتے ہوئے سورج اور شفق رنگ بادلوں کی طرف پھیر دی۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔