Topics

رفیق اعلیٰ


                بات کہنے کے انداز میں کوئی ایسی بات تھی کہ الوہی انتظام کا ایک خاکہ سا ذہن سے گزرتا چلا گیا۔ یہ سارا انتظام بندے کو اس طرف راغب کرنے ہی کو ہوا نا اور جب بندہ راغب ہو جائے تو جلوؤں کے سمندر پار جا گزین رفیق اعلیٰ کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔ اس تمنا کا ساخشانہ، قربت الٰہی کا وہ کونسا مقام ہو گا جس کی قاب قوسین سے بھی سیری نہ ہو سکی۔ یہ بات ذہن میں آئی اور سوال بن گئی۔ مرید نے پوچھا:

                ’’رفیق اعلیٰ سے مراد اعلیٰ ترین قسم کی رفاقت ہوئی اس رفاقت کی بھلا کیا نوعیت ہو گی؟‘‘

                فرمایا:’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں جب آپ نے ایک چیز کو دیکھ لیا تو وہ ابعاد و یعنی Dimensionsمیں آگئی۔ اللہ کو قاب قوسین کے مقام یا حالت پر دیکھ لینے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے اس روپ کے متمنی تھے جو حدود سے ماورا یعنی Dimension Lessتھا۔‘‘

                اختصار کلام کی خوبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے اس سوال کا جواب دو ہی جملوں میں مکمل کر دیا جس کی بابت ایک طویل تقریر متوقع تھی۔

                ذہن میں سکوت کا ایک وقفہ حیرت اور استعجاب کی علامت بن گیا۔ پھر کئی باتیں یکدم ذہن میں آئیں اور گڈ مڈ ہو گئیں۔ ہم ان گڈ مڈ ہوتی کیوں اور کیسی والی باتوں کا سرا ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ فرمانا شروع کیا۔

                ’’انسان صبر نہیں کرتا۔ حالانکہ اللہ نے صاف کہا ہے ان اللہ مع الصابرین یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور صبر نہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں۔ یعنی آپ جلد بازی کرتے ہیں تو اللہ آپ سے دور ہٹ جاتا ہے۔ ہر کام ایک سسٹم کے تحت ہوتا ہے۔ بندہ خود اٹھارہ سال میں جوان ہوتا ہے اور جوان ہو کر کہتا ہے کہ میرا کام ابھی ہو جائے۔ بھئی کیسے ہو جائے۔ خود تم اٹھارہ کی بجائے دو ہی سال میں جوان ہو جاتے تو جو کام سال میں ہونا چاہئے وہ ایک مہینے میں ہو جائے۔ انسان بلاشبہ ظالم ہے، جاہل ہے اور جلد باز ہے اور اس کا نقصان بھی خود اسی کو ہے۔ آپ غصہ کرتے ہیں آپ کی عمر کم ہو جاتی ہے۔ نقصان کس کا ہوا؟ یہ خود پر ظلم ہی تو ہوا نا۔‘‘

                ’’اللہ میاں کو کبھی کسی ولی نے غصے یا جلال کی حالت میں نہیں دیکھا۔ باطنی طور پر جب بھی دیکھا۔ باپ کی، پیار کرنے والے کی یا مرشد کی صورت میں ہی دیکھا۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ میاں غصے میں تھے۔ پھر یہ اللہ سے ڈرنے کا چکر نہ جانے کہاں چل گیا ہے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔