Topics

پیر صاحب کا واقعہ


                پھر اس بات کی مزید وضاحت کو ایک پیر صاحب کا واقعہ سنایا۔ وہ اپنے ایک مرید پر زیادہ توجہ کرتے تھے۔ دوسروں کو رشک ہوا اور انہوں نے کچھ ایسی ویسی باتیں کہہ دیں کہ پیر صاحب نے ایک روز ایک مرید کو بلایا اور قدرے رازداری سے ایک مرغی اور ایک چھری دے کر کہا۔ اس کو ذبح کرنا ہے مگر ذرا دیکھ بھال کر۔ کہیں کوئی دیکھے نہ۔ وہ گئے اور ذبح کر کے لے آئے۔ پوچھا کسی نے دیکھا تو نہیں۔ اچھی طرح اطمینان کر لیا تھا نا۔ اس نے کہا۔ جی ہاں، میں نے خوب اچھی طرح دیکھ بھال کر ذبح کی ہے۔ وہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ خیر چند روز بعد دوسرے مرید کو بلایا اور اس سے وہی فرمائش کی کہ بھائی یہ مرغی ذبح کرنا ہے مگر کسی ایسی جگہ کرنا جہاں کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ ذرا چھپا کر احتیاط سے۔ وہ جی اچھا کہہ کر مرغی لے کر چلے گئے۔ صبح کے گئے دوپہر ہو گئی۔ وہ صاحب ندارد۔ پھر شام ہو گئی۔ سب باتیں بنانے لگے۔ اتنا سا کام کہا مرشد نے اور ان کا یہ حال۔ شام ڈھلی رات گئے وہ مرید پلٹے۔ حیران پریشان۔ مرغی اسی طرح زندہ سلامت بغل میں۔ بھئی یہ کیا؟ تم نے اسے ذبح کیوں نہیں کیا؟ وہ مرید بولا۔ حضور آپ نے فرمایا تھا کہ اس کو کسی ایسی جگہ ذبح کرنا ہے جہاں کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ حضور میں نے تو جہاں بھی چھری اس کی گردن پر رکھی وہیں اللہ کو اپنی طرف دیکھتے پایا۔ حضور معافی چاہتا ہوں۔ میں اسے ذبح نہیں کر سکا۔

                وہاں بیٹھے افراد اس حکایت سے کیا سمجھے، کیا نہیں، مگر میں اتنا ضرور سمجھا کہ مرشد کریم ذہنوں کو کس طرح چمکاتے اور صاف کرتے ہیں تا کہ نظر کھلے اور بندہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل ہو جائے جو اللہ اس کو دکھانا چاہتا ہے۔ مگر آدمی تو وہی کچھ دیکھتا ہے جو وہ خود دیکھنا چاہتا ہے۔

                ایک صاحب نے کہا:

                ’’اس طرح تو آدمی دنیا سے کٹ کر ہی رہ جائے گا۔‘‘

                فرمایا:’’انسانوں نے خود کو دنیا میں پیسے جمع کرنے میں، مادی معاملات کو سیدھا کرنے میں ہی برباد کر لیا ہے۔ اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں۔ اللہ کے حقوق پورے کرنے سے پہلے حقوق العباد پورے کریں۔‘‘

                پھر کہا:’’فقیر کبھی نہیں بکے۔ فقیر کبھی بکتا ہی نہیں۔ ہمیشہ مولوی بکا حکمرانوں کے ہاتھوں۔ فقیر کبھی ایک دوسرے کی کاٹ نہیں کرتا۔ ہمیشہ مولوی کرتا ہے۔ اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ یہ کبھی کسی فقیر نے نہیں کہا۔ بریلوی دیو بندی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا۔ یہ اہل حدیث ہے اس کی نماز اس کے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ ویسے عجیب بات ہے مولوی ایک دوسرے کی نماز کو غلط کہتے ہیں، ایک دوسرے کے پڑھائے ہوئے نکاح کو باطل قرار نہیں دیتے۔‘‘

                ایک صاحب نے کتاب ’’جنت کی سیر‘‘ کے حوالے سے کوئی سوال کیا۔

                فرمایا:’’جی ہاں! میں اس میں ایسی باتیں کہہ گیا ہوں جو کہنے کی نہیں تھیں۔ دراصل وہ کتاب میں نے اپنے مرشد کے جانے کے بعد لکھی۔ ان کی زندگی میں ہوتی تو ایسی کھلی باتیں نہ ہوتیں۔ وہ اس کی اجازت ہی نہ دیتے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔