Topics
انسانی فطرت کی بابت کوئی بات سمجھانی ہو تو اکثر کسی قصے کی صورت میں بیان
فرماتے۔ فرمایا:
’’ایک بادشاہ کا دل ایک عورت پر آ گیا۔ عورت شادی شدہ تھی اور اسے اپنے شوہر سے
محبت بھی بہت تھی۔ بادشاہ نے وزیر سے اس عورت کو حاصل کرنے کی تدبیر کرنے کو کہا۔
وزیر نے اس کے شوہر کو شاہی محل کے قریب ایک مکان رہنے کو دیا۔ پھر اس کے شوہر کو
ایک ایسی دوائی دی کہ اس کو دست لگ گئے۔ یہ بندوبست اس نے پہلے ہی کر لیا تھا کہ
تمام ملازم وغیرہ نکال دیئے تھے۔ عورت نے ایک روز تو اپنے خاوند کی خدمت کی۔ دو
روز اور پھر جب آٹھ سے دسویں روز پر نوبت آئی تو وہ تنگ آ چکی تھی۔ اس کی غلاظت
صاف کرتے کرتے۔ اس نے اٹھا کر خاوند کی چارپائی گھر سے باہر رکھوا دی۔‘‘
اسی طرح ایک اور واقعہ ارشاد فرمایا کہ:
’’ایک عورت بہت لاپروا تھی۔ ہر وقت اپنے ہی دھیان میں رہتی۔ اس کا شوہر بیمار
ہوا۔ اس نے کچھ زیادہ پروا نہ کی۔ وہ چند روز بعد مر گیا۔ عورت نے یہ معلوم ہونے
پر کہ اس کا شوہر فوت ہو چکا ہے، اٹھ کر بالائی لی اور شوہر کے منہ پر لگا دی تا
کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ فاقوں مر گیا اور رونا شروع کر دیا۔ کہ بیچارا بالائی کھاتے
کھاتے فوت ہو گیا ہے۔‘‘
ناشتے کے بعد خواتین سے ملاقات کا آغاز ہوا۔ اب خواتین کو وقت دیا جا رہا ہے۔
دوپہر تک یہ سلسلہ چلنا تھا۔ ہم نے ممتاز علی سے پشاور شہر کی سیر کرنے کی بابت دریافت
کیا۔ انہوں نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ پشاور شہر میں قصہ خوانی گئے۔ وہاں سے گزر کر
مسجد مہابت خان دیکھی۔ پھر صدر چلے گئے، بازار زیادہ بڑے نہیں لیکن کچھ اتنے چھوٹے
بھی نہیں۔ صدر میں دکانوں پر ہر طرح کا ملکی اور غیر ملکی سامان دستیاب۔ وہاں سے
پروگرام بنا کہ حیات آباد کے قریب کارخانوں کی مارکیٹ بھی دیکھ ڈالی جائے۔ یہاں
دنیا بھر کی اشیاء ملتی ہیں، ملک بھر سے لوگ آتے ہیں ان چیزوں کو خریدنے۔ ممتاز
بھائی نے کچھ بھی خریدنے سے انکار کیا کہ حیدر آباد میں بھی یہ سب کچھ دستیاب ہے،
آپ تو ہمیں چپلی کباب کھلائیں۔
شام تک یہی مصروفیت رہی۔ شام کو مراقبہ ہال واپس آئے تو معلوم ہوا کہ مرشد کریم
خطاب کریں گے۔ لوگ کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ کچھ ان کو دیکھنے، کچھ ان سے
اپنے دکھوں کا علاج کروانے اور کم تھے جو انہیں سننے آئے تھے۔ روحانی علاج کے
حوالے سے جتنے لوگ میرے مراد سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کے روحانی علوم سے مستفیض
ہونے والوں کا تناسب کیا ہو گا؟ ہجوم کے درمیان بیٹھے مرید نے سوچا اور ذہن میں
اپنے مراد ہی کی فرمائی ہوئی بات گونجی، ساڑھے گیارہ لاکھ میں ایک۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔