Topics

عشق کیا ہوتا ہے۔


                آج جمعہ کا دن ہے۔ مراقبہ ہال میں صبح سویرے سے ہی چہل پہل اور گہما گہمی ہے۔ نماز، مراقبہ، ناشتہ اور اس کے فوراً بعد مریضوں اور آنے والے مہمانوں سے ملاقات۔ جمعے کے دن میرے مراد کی مصروفیات خواہ وہ کراچی میں ہوں، لاہور میں ہوں یا کاکڑہ ٹاؤن میں کچھ اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ صبح سے شام تک یہ دن عوام کے لئے مختص ہوتا ہے۔ مریض اور ایسے ایسے لاعلاج امراض کے مریض جنہیں طب جدید کے ڈاکٹروں نے اپنی نا اہلی کے اعتراف کے بعد ہسپتالوں سے فارغ کر دیا ہوتا ہے اور ان کے لواحقین کو صاف صاف کہہ دیا ہوتا ہے کہ اب ہم مزید کچھ نہیں کر سکتے، آپ دعا کریں۔ انہیں گھر لے جائیں۔ ان کی خدمت کریں۔ فالج اور کینسر، ناکارہ پھیپھڑوں اور عجیب و غریب امراض کے مریض یہاں آتے ہیں اور میرا مرشد ان کی دیکھ بھال، ان کے علاج تجویز کرنے میں اتنا منہمک کہ یہ مصروفیت، سب مصروفیات پہ حاوی اور اہم ہو جاتی ہے۔

                لوگ آتے ہیں۔ نگران حضرات ان کو بٹھاتے ہیں اور باری باری ملوا دیتے ہیں۔ لوگ مل کر باہر آتے ہیں تو ان کے چہروں پر ایک عجیب سی طمانیت ہوتی ہے۔ بعض تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے ہوتے۔ میں نے آج تک ہزاروں لوگوں کو اپنے مراد کے کمرے میں جاتے بھی دیکھا ہے اور ان کو باہر آتے بھی۔ اندر جانے سے پہلے ایک تناؤ، پریشانی اور گھبراہٹ کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ باہر آتے ہی تو نوے فیصد افراد کے چہروں پر سکون، طمانیت اور مسکراہٹ ہوتی ہے۔ 10فیصد کے چہرے حیرت، استعجاب، یقین نہیں آتا اور دیکھیں گے، کی کیفیت کے اثرات لئے ہوئے ہوتے ہیں، میں نے گھنٹوں بیٹھ کر یہ منظر دیکھے ہیں۔ ان مناظر میں بعض تو ایمان کو تازہ ہی نہیں کرتے، پیدا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مریض کندھوں پر سوار آتے ہیں اور پیروں پر چل کر جاتے ہیں۔ بعض کی حالت ڈوبتے کی سی ہوتی ہے۔ وہ کچھ اس طرح سے ہاتھ پیر مار رہے ہوتے ہیں جیسے ڈوب رہے ہوں اور جب جاتے ہیں تو خود کو بہاؤ پر تیرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ اکثریت باہر آ کر ہاتھ میں پکڑی پرچی لے کر کسی سے اس کی تشریح کرواتے ہیں جو عموماً نگران مراقبہ ہال کرتے ہیں، کیوں کہ لوگ روحانی طرز علاج سے نامانوس ہوتے ہیں اور اس کو اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں۔ مرشد کریم علاج میں رنگ اور روشنی سے علاج، طب یونانی یا روحانی مجربات میں سے کوئی آزمودہ نسخہ مرحمت فرماتے ہیں۔ بعض تو اصرار کرتے ہیں کہ آپ ہمیں دم کریں اور ان پر کچھ پڑھ کر پھونک دیا جاتا ہے۔

                دم کرنے کا ایک عجیب واقعہ مجھے اقبال احمد قریشی صاحب نے سنایا۔ ایک صاحب نے قادری صاحب سے کسی بات پر اختلاف کیا۔ موضوع عشق کی کیفیت رہا ہو گا۔ ان صاحب نے قادری صاحب سے کہا۔ آئیں، چل کر ابا حضور سے پوچھ لیتے ہیں کہ عشق کیا ہوتا ہے؟ قادری صاحب نے منع کرتے ہوئے کہا:

                ’’فقیر بات سمجھانے کو وہ بات وارد کر دیا کرتے ہیں۔‘‘

                ان کو چین کہاں؟ موقع کی تلاش میں رہے۔ ایک وقت ایسا مل ہی گیا۔ قادری صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے مرشد کریم سے سوال کر دیا:

                ’’حضور! یہ عشق کیا ہوتا ہے؟‘‘

                پیشتر اس کے کہ حضور جواب دیتے، قادری صاحب نے سر سے ٹوپی اتاری اور سر جھکاتے ہوئے آگے کیا اور کہا:

                ’’حضور! مجھے تو دم کر دیجئے۔‘‘

                مرشد کریم نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا، کچھ پڑھ کر پھونک دیا۔ ان صاحب نے اپنا سوال دہرایا۔ ابا نے ان کو جواب میں کچھ کہا، شاید یہ کہا کہ:

                ’’جب ہو گا، تو پتہ چل جائے گا۔‘‘

                اس کے بعد کرنا خدا کا کیا ہوا، وہ صاحب عشق بلاخیز میں گرفتار ہوئے۔ کھانا، پینا، سونا اور جاگنا، سب ہوش اڑ گئے۔ کتنے ہی ماہ وہ گرفتار بلا رہے۔ ایک روز گھر والے پکڑ کر حضور کے پاس لائے کہ حضور انہیں کچھ ہو گیا ہے۔ اچھے بھلے بیٹھے ہوتے ہیں، کپڑے پھاڑ دیتے ہیں، گھر سے نکل جاتے ہیں، ان کے ہوش ٹھکانے نہیں۔ بدنام ہو رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان پر دم کر دیجئے۔ حضور نے دم کر دیا۔ ہوش ٹھکانے آئے۔ قادری صاحب کی بذلہ سنجی اور دل لگی بازی سے کون آگاہ نہیں۔ بعد میں اکثر انہیں یہ کہہ کر چھیڑا کرتے:

                ’’ان سے پوچھیں، یہ عشق کر چکے ہیں۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔