Topics

اعراف


                ’’اب تو کوئی مجھے زندگی کی دعا کے لئے کہتا ہے تو مجھے عجیب سا لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ مجھ سے اپنی قید میں اضافے کی درخواست کرنے کو کہہ رہا ہو۔‘‘

                نیاز صاحب کو مخاطب کر کے ہمیں آئندہ زندگی کی تیاری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:

                ’’حالانکہ اوپر عالم اعراف کی زندگی، اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگوں کے لئے یہاں کی زندگی سے بہرحال بہت بہتر ے۔ وقت پر کھانا ملتا ہے۔ گھنٹی بجتی ہے، سب آ کر اپنا اپنا کھانا لے کر کھا لیتے ہیں۔ نہ پکانے کا جھنجھٹ نہ برتن صاف کرنے کا مسئلہ۔ کپڑے بھی وہاں تیار مل جاتے ہیں۔ رہنے کو جگہ بھی مل ہی جاتی ہے۔‘‘

                ’’یہاں پر جو بچے فوت ہو جاتے ہیں۔ وہاں وہ جوان ہوتے ہیں۔ ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ یہ شادیاں وہاں اوپر والوں کے لئے اجتماعی خوشی بن جاتی ہے۔ سب اس میں شریک ہوتے ہیں۔ وہاں اور کوئی مصروفیت بھی تو نہیں۔ ادھر چلے گئے ادھر چلے گئے۔ اس سے مل لیا۔ اس سے مل لیا۔ بعض سیارے ایسے ہیں جہاں پر انسان جا سکتا ہے۔ وہاں چلے گئے۔ یہ ان کی پکنک ہو گئی۔ البتہ تکوین کا کام کرنے والوں کو وہاں بہت کام کرنا ہوتا ہے۔ کان کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔