Topics

لوگ تو کہتے ہیں کہ سلسلے نے ہمیں کیا دیا ہے


                میں نے کئی بار اپنے مرشد کو یہ کہتے سنا ہے کہ:

                ’’لوگ تو کہتے ہیں کہ سلسلے نے ہمیں کیا دیا ہے۔‘‘

                اس جملے کو کہتے ہوئے ان کے لہجے میں ایسا کہنے والوں کی نادانی پر تاسف کا گہرا احساس چھپا ہوتا ہے۔ ظاہر بین حضرات ہی ایسا کہنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ ورنہ وہ جو اپنے مراد کی گہری محبت کو ایک بار محسوس کر لے، ایسا کہنا تو کجا ایسا سوچنا بھی گوارا نہیں کر سکتا۔

                صبح قاضی صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ آج مرشد کریم کا پروگرام اسلام آباد جانے کا ہے۔ آپ شفیق صاحب کے یہاں رہیں۔ ہم سب وہیں اکٹھے ہونگے۔ شفیق صاحب تو یہ خبر سن کر نہال ہو گئے۔ ہم ان کے ہمراہ ان کے گھر آ گئے۔ وہاں وہ مرشد کریم کے استقبال کی تیاریاں کرتے رہے ہم انہیں تیاریاں کرتے دیکھتے رہے۔ چائے میں فلاں شئے ہونا ضروری ہے۔ فلاں سیٹ نکالو۔ وہاں گلدان میں وہ پھول لگاؤ۔ یہ کیمرہ تیار کرو۔ وہ تھوڑی دیر ہمارے پاس اکیلے بیٹھیں گے نا۔ بیگم شفیق اپنے مراد سے کچھ راز و نیاز کرنا چاہ رہی ہوں گی۔ نہ جانے کیا کیا کچھ کہنا چاہتی ہوں گی۔ اپنا کون کون سا دکھ ان کے حضور بیان کر کے خود کو ہلکا پھلکا کریں گی۔ یہاں یہ طغریٰ ٹھیک نہیں اس کو اتار کر ادھر لگا دیں، پلیز۔ ان کی بیٹی بھی جوش کے مارے پورے گھر میں بھاگتی پھر رہی تھی۔ کسی کے گھر آنے پر پورے کا پورا گھرانہ اس طرح چشم براہ ہو سکتا ہے میں نے ایسا کم ہی دیکھا ہے۔

                شفیق صاحب کے ساتھ مارکیٹ گئے۔ کیمرے کے سیل خریدے۔ بابا جی کے لئے پھول اور ہار۔ بیکری سے کیا کیا لینا ہے۔ شفیق صاحب اپنی بیگم کی دی ہوئی لسٹ کو یاد کرتے نہ جانے کیا کیا خریدتے رہے۔ میں اور ممتاز علی ان کے اندر ان کے مراد کی محبت کی کشش سے ہونے والی اتھل پتھل کا نظارہ کرتے، ان کے ہمراہ ادھر ادھر گھومتے پھرتے، ان کو تیاریاں کرتے، ان کے خدشات پہ ان کو تسلی دیتے رہے۔ اب انتظار تھا کہ مرشد کریم تشریف لائیں۔

                ایک گاڑی آتو رہی ہے وہ تو نہیں۔ اب تک انہیں پہنچ جانا چاہئے۔ قاضی صاحب پتہ نہیں انہیں کہاں کہاں لئے پھر رہے ہونگے؟ دس سے گیارہ بج گئے۔ انتظار میں پہلے تو کوفت ہونا شروع ہوئی پھر جھنجھلاہٹ۔ شفیق صاحب کبھی اندر کبھی باہر، بارہ بج گئے:

                ’’یہ قاضی صاحب نے بابا جی کو منع کر دیا ہو گا۔‘‘

                بیگم شفیق کے خدشات نے سر ابھارا:

                ’’آپ اپنی تیاری رکھیں جب کہا گیا ہے کہ چائے آپ کے ہاں پئیں گے تو آپ فکر نہ کریں۔ ابا حضور ضرور آئیں گے۔‘‘

                ان کو تسلی دی گئی۔ ایک بج گیا۔

                ’’اب تو چائے پلانا غلط ہو جائے گا۔ آپ کھانے کا بندوبست فرمائیں۔‘‘

                شفیق صاحب نے اپنی بیگم سے کہا اور ہم سے رائے لی۔ ہم خود الجھ سے گئے تھے۔ قاضی صاحب کہیں سے فون ہی کر دیتے۔

                ایک گاڑی آئی۔ عثمان صاحب اور قاضی صاحب تشریف لائے۔

                ’’بابا جی کہاں ہیں؟وہ آ رہے ہیں نا؟ وہ آئیں گے نا؟‘‘

                سوال در سوال کے جواب میں قاضی صاحب نے کہا کہ::

                ’’ ابا حضور چائے یہیں آ کر پئیں گے۔ اس وقت تو ہم انہیں لینے آئے ہیں۔ انہیں ابا نے بلایا ہے۔‘‘

                انہیں سے ان کا اشارہ ہماری طرف تھا۔ ہم نے انتظار کی اذیت سے نجات ملنے پر شکر کیا اور کھانا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

                قاضی صاحب ہمیں لے کر جس گھر گئے وہ گھر سے زیادہ ایک محل تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے طبیعت پر ایک بوجھ سا لگا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا، عمارت شاندار، آٹھ دس گاڑیوں کی گنجائش والا پورچ، وسیع و عریض لان، لان میں طرح طرح کے پھول دار پودے، بعض نایاب قسم کے پودے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عجیب سا احساس کیا ہے۔ ہم نے اپنے مراد کے چہرے پر نظر ڈالی اور بے فکر ہو گئے۔ ہو گا کچھ۔

                صاحب خانہ کا چھوٹا بھائی مرشد کریم کے عقیدت مندوں میں سے تھا اور وہ چاہتا تھا کہ مرشد کریم ایک وقت کا کھانا ان کے ہاں کھائیں۔ ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے وہاں پہنچتے ہی کھانے کی میز کی طرف روانگی ہوئی۔ کھانے کی میز طرح طرح کے مرغن اور ثقیل کھانوں سے اٹی ہوئی تھی۔ صاحب خانہ میزبانی میں پٹھانوں کی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ فرماتے رہے۔

                کھانے کے بعد میزبان نے اپنی زندگی کے چند ایک واقعات سنا کر یہ ثابت کیا کہ اگر وہ نماز نہ پڑھتے تو جیل سے ان کی رہائی نہ ہوتی۔ وہ اتنے کامیاب آدمی نہ ہوتے، ان کے پاس اتنی دولت نہ آتی اور پھر انہوں نے مرشد کریم سے براہ راست سوال کیا کہ آپ اپنے مریدوں کو نماز کی تلقین کرتے ہیں؟ جواب اثبات میں پا کر بھی انہیں تسلی نہ ہوئی تو کہا:

                ’’میرا یہ چھوٹا بھائی تو نماز کی پابندی نہیں کرتا۔‘‘

                ان کے لہجے میں شکایت تھی۔ مرشد کریم نے کسی بھی قسم کا کوئی تاثر لئے بغیر ان سے بات جاری رکھی۔ مرید نے اپنی طبیعت پر بوجھ اس گھر میں داخل ہوتے ہی محسوس کیا تھا، وہ چند ہو کر دوبارہ طاری ہو گیا۔ عثمان صاحب اور قاضی صاحب نے کچھ محسوس کیا یا نہیں۔ ممتاز علی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو مراد نے انگلی کے اشارے سے انہیں روک دیا۔ بڑوں کی موجودگی میں جب تک وہ خود نہ کہیں، زبان کھولنا آداب محفل اور حفظ مراتب دونوں ہی کے خلاف ہوتا ہے۔

                وہاں سے نکل کر ہم شفیق صاحب کے گھر آئے۔ وہاں محبت کا گداز دیکھ کر یوں لگا کہ ہم چھاؤں میں آ گئے۔ غیروں سے ہٹ کر اپنوں میں آنے کا مزہ تازہ ہو گیا۔ اپنائیت کا وہ احساس جو اس محل میں کہیں نہ تھا، یہاں اس مکان میں فراوانی سے پھیلا ہوا تھا۔ چائے پی کر شفیق صاحب مرشد کریم کو اوپر کی منزل دکھانے کے بہانے، اپنے دکھوں کا مداوا مانگنے انہیں لے کر وہاں سے ہٹ گئے۔

                مراقبہ ہال واپسی کے دوران میں سب نے باری باری ان صاحب کے بارے میں تبصرہ کیا کہ وہ اپنے بھائی کے ہم فقیروں سے میل جول پر خوش نہیں ہیں۔ حضور نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی جب ان سے رجوع کر کے دریافت کیا تو فرمایا:

                ’’اپنی اپنی سوچ ہے۔ آپ سوچیں!‘‘

                یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے سوچا کہ لوگ اللہ کی بات تو مانتے نہیں۔ اگر انہوں نے مرشد کی نہ مانی تو کونسی بڑی بات ہوئی اور مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ گاڑی سے باہر دیکھ رہے تھے۔

                اگلے روز صبح سویرے پشاور سے جمشید، زبیر اور قریشی صاحب اور اٹک مراقبہ ہال کے انچارج ڈاکٹر ممتاز اختر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ پہنچ گئے۔ وہ مرشد کریم کو اپنے ہمراہ لے کر جانا چاہ رہے تھے۔ بحث و تمحیص کے بعد طے یہ پایا کہ مرشد کریم اٹک تک ڈاکٹر ممتاز اختر کے ہمراہ جائیں گے وہاں سے آگے وہ پشاور کے لئے جمشید صاحب کی گاڑی میں منتقل ہو جائیں گے۔ ممتاز اختر صاحب کی طبیعت میں صلح جوئی کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرنے اور کئے ہوئے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔

                پنڈی مراقبہ ہال سے روانگی کا منظر دیگر مراقبہ ہالوں سے روانگی کے مناظر سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ ایک معزز اور معتبر ہستی سے بچھڑنے کا تاثر، دوبارہ ملنے کی امید، ملاقات سے حاصل ہونے والی خوشیوں سے دھلے چہرے، الوداعی انداز میں ہلتے ہاتھ، درپیش سفر بخیر ہونے کی دعائیں اور دعاگو ہونے کی التجاؤں کے درمیان گاڑی مریڑ حسن پنڈی سے نکلی۔ اب گاڑی میں ڈرائیور اور ممتاز اختر صاحب نئے چہرے تھے۔ باقی وہی جو لاہور سے آغاز سفر کئے ہوئے تھے۔ ممتاز علی اور میں نے مراد کی ہمراہی دوبارہ نصیب ہونے پر تشکر کا احساس اپنے اندر موجزن پایا۔

٭٭٭٭٭

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔