Topics

انسان کو معنی پہنانے کا علم یعنی اسماء کی صفات میں معانی پہنانے کا علم دیا گیا


                شفیق صاحب ہمیں پنڈی مراقبہ ہال کی بجائے اسلام آباد اپنے گھر لے گئے۔ سکول روڈ پر کافی بڑا اور کھلا سا گھر تھا۔ گھر کے سامنے لان اور پیچھے سبزیوں کی کیاریاں، ایک دو کمروں کی اینکسی۔ گھر میں خرگوش دیکھ کر مجھے شفیق صاحب کے اندر کے دیہاتی کا دھیان آیا۔ وہ ہمیں مرشد کریم سے اپنے ملنے کا واقعہ سنا رہے تھے۔ انہوں نے ایک دنیا دیکھ رکھی تھی، مگر اتنی دنیا دیکھ کر بھی وہ اندر سے وہی سیدھے سادھے دیہاتی آدمی تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ ہمیں اپنے بیٹے کی وفات کا بتا رہی تھیں۔ کس طرح وہ گھر سے نہانے کے لئے گیا اور واپس نہیں آیا۔ میرے ذہن میں یہی گذرا کہ وہ نہا کر تتلیوں کے پیچھے دور نکل گیا ہے۔ حمدہ، ان کی بیٹی قدرے توتلی سی زبان میں، اپنے ابو کے ساتھ بے تکلفی سے جملے بازی کرتی اور ہمیں داد طلب نظروں سے دیکھتی۔ مجھ سے کہنے لگی:

                ’’میرے ابو کے بہت کم دوست ہیں۔ آپ انہیں اچھے لگے ہیں۔‘‘

                پھر لان میں بیٹھ کر چائے پی گئی۔

                چائے کے دوران میں نے حمدہ سے مرشد کریم کی بابت پوچھا کہنے لگی:

                ’’ہمارے بابا جی بہت کیوٹ(Cute) سے ہیں۔ انہیں دیکھیں تو دل کرتا ہے، دیکھتے ہی رہیں۔ سو سویٹ ہی از(So Sweet he is!) کیوں ہیں نا؟ اور پھر ہنس دی۔ ان کی امی نے ان کی رائے پر صاد کیا۔

                رات پنڈی مراقبہ ہال میں بسر ہوئی، مرشد کریم قاضی صاحب کے گھر رہے۔ صبح نماز کے وقت تشریف لائے۔ باجماعت نماز کی امامت مرشد کریم نے خود فرمائی۔ صبح کے وقت ان کی مدھر آواز میں تلاوت سماعتوں کے پتھروں پر پہاڑی جھرنوں کے ترنم اور تال میل کی طرح بہتی ہوئی قلب و روح کو سیراب کرتی رہی۔ نماز کے بعد مراقبہ ہوا۔ مراقبہ کے بعد حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا:

                ’’اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح دوسری مخلوق پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے تمام اعمال اور حرکات میں انسان کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ہم عمر کے تعین کے لحاظ سے بھی انسان کو ممتاز قرار نہیں دے سکتے۔ اگر ماں باپ کی شفقت کے حوالے سے دیکھیں تو سب ہی جانور اپنی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں۔ انسان کو اگر کوئی فضیلت حاصل ہے تو وہ صرف شعوری ارتقاء کے حوالے سے ہے۔ انسان کے علاوہ کسی اور جانور میں ہمیں شعوری ارتقاء نظر نہیں آتا۔ بکری آج سے لاکھوں سال پہلے بھی پتے کھاتی تھی، آج بھی وہ پتے کھاتی ہے۔ اسے گھر کی ضرورت تب بھی نہ تھی اور آج بھی اسے گھر کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

                ’’انسان اور دوسرے مخلوق میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انسان میں بار بار تبدیلی آتی ہے۔ کسی کیڑے، کسی پرندے، کسی جانور کی زندگی میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ جانوروں بلکہ انسان کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں کے شعور منجمد ہیں۔ ان کے شعور کا دائرہ کارمعین ہے۔ وہ آپس میں لڑتے ہیں، کھاتے ہیں، پیتے ہیں، شادی بیاہ اور اولاد کی خواہش کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے اندر شعوری ارتقاء نہیں ہے۔‘‘

                ’’خیالات کی رو دماغ پر مسلسل اور متواتر پڑتی رہتی ہے۔ آدمی چاہے یا نہ چاہے، یہ خیالات نازل ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ خیالات زندگی کو چلانے کے لئے اور کچھ خیالات زندگی کو آگے بڑھانے اور سدھارنے کے لئے ہوتے ہیں، اسی کو ارتقاء کہتے ہیں۔‘‘

                ’’خیالات کی قبولیت یا خیالات کو رد کرنا، یہ دو صلاحیتیں ہیں۔ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق میں رد کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یعنی انسان کے دماغ میں ایسا ریسیونگ سیٹ(Receiving Set) لگا ہوا ہے کہ وہ موصولہ اطلاعات میں الگ سے ہٹ کر بھی معنی پہنا سکتا ہے۔ یہ معنی پہنانا علم کی حیثیت رکھتا ہے یعنی انسان انفارمیشن کو قبول کر کے ان میں معنی پہناتا ہے۔ اب اگر اطلاع میں معنی پہنانے والی ایجنسی محدود ہے تو وہ محدود دائرے میں سفر کرے گا اور اگر انفارمیشن کو انسان قبول کر کے گہرائی میں داخل ہو گا تو لامحدودیت میں سفر کرے گا۔‘‘

                ’’آسمانی مخلوق میں فرشتوں کی حیثیت ایک روبوٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی اپنی کوئی رائے کوئی مرضی یا کوئی اختیار نہیں۔ جب انسان زمینی شعور سے نکل کر آسمانی شعور میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اطلاع میں معنی پہنانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی لئے اسے شعوری ارتقاء کی بناء پر فرشتوں پر بھی برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ آدم کی اسی علمی حیثیت کی بناء پر آدم کو فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا۔‘‘

                ’’انسان کو معنی پہنانے کا علم یعنی اسماء کی صفات میں معانی پہنانے کا علم دیا گیا تھا۔ اللہ ایک ایسی ہستی جو قادر مطلق ہے، پوری کائنات پر کنٹرول رکھنے والی ذات، ہر مخلوق کے لئے ایک دائرہ ہے۔ ایک ایسا دائرہ جو ہر طرف سے محیط ہے۔ مخلوق اس دائرے سے نکلنے کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔ اس بات کا علم ہونا، اس کا علم رکھنا آدم کی فضیلت ہے۔ یعنی آدمی میں اللہ نے ایک ایسا شعور رکھ دیا ہے جو گہرائی میں جا کر نئی نئی باتیں معلوم کر سکتا ہے، ایجادات کر سکتا ہے۔‘‘

                فرمایا:’’اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان میں اس کو زمینی اور آسمانی مخلوق سے ممتاز کرنے والی صفت ہے اور وہ صفت یہ ہے کہ وہ انفارمیشن قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو رد کرنے والی ایجنسی بھی رکھتا ہے۔‘‘

                ’’آدم کی اولاد بھی آدم ہے۔ آدم کی موجودہ پیدائش، نسلی اعتبار سے زمینی شعور کے تحت پیدا ہوتی ہے، یعنی محدودیت میں رہ کر وسائل استعمال کرتی ہے اور دنیاوی معاملات اس کی تمام تر توجہ جذب کئے رہتے ہیں۔ ہر آدمی جنت میں نافرمانی کا مرتکب ہو کر ہی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ہر آدمی آدم ہے اور ہر لڑکی حوا۔ جب تک آدمی جنت میں غلطی کا مرتکب نہیں ہوتا وہ دنیا میں نہیں آتا۔‘‘

                ’’دنیا میں آ کر اگر انسان نے خود کو محدود کر لیا تو وہ جانوروں سے بھی کم تر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اگر وہ حیوانات سے ممتاز ہونا چاہتا ہے تو اس کے اندر ہر وہ صلاحیت موجود ہونا چاہئے جو زمینی اور آسمانی مخلوق میں موجود نہیں۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو پانے کے لئے ہمارے پاس صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم خود کو اس شعور سے آراستہ کر لیں جو انبیاء کا شعور ہے، جو انبیاء کے وارث اولیاء کرام کا شعور ہے۔‘‘

                خطاب کے بعد لوگوں نے حضور سے ملنا شروع کر دیا۔ ملاقات کے لئے آنے والے لوگوں کے ہجوم کے پیش نظر قاضی صاحب نے چیدہ چیدہ افراد کو ہی ملاقات کی اجازت دی اور ادھر ناشتہ لگوا دیا کہ لوگ ناشتے کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ ان کی یہ حکمت عملی بہت حد تک کارگر رہی۔

                ناشتے کے بعد انہوں نے مرشد کریم کے بیٹھنے کو باہر صحن میں ایک طرف انتظام کر کے لوگوں کو باری باری ان کے پاس بھجوانے کا اہتمام کیا۔ اس دوران عقیدت کے، ضرورت کے، پریشانی کے، جلد بازی کے، گھبراہٹ کے، طلب کے، بیماری کے، عجیب عجیب چہرے دیکھنے کو آتے رہے۔ ایک معمر آدمی ڈیوٹی پر کھڑے صاحب سے عجیب سے لہجے میں دہائی دیتے ہوئے پنجابی میں کہہ رہا تھا:

                ’’مجھے ان کو صرف ایک نظر دیکھ لینے دو۔ میں بہت دور سے آیا ہوں۔ میں ان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

                ڈیوٹی پر کھڑے صاحب ان سے ایک ہی بات کہے جا رہے تھے:

                ’’ذرا صبر کریں، آپ سے پہلے آئے ہوئے لوگوں کا بھی کچھ حق بنتا ہے۔‘‘

                حق بننے کی بات پر مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ لوگوں کے حق کے مقابل تو بندے کا فرض ہی بنتا ہے۔ حق کی طلب کے مقابل فرض کی ادائی پر توجہ دی جائے تو زندگی کی راہوں میں انقلاب آ جاتا ہے۔ فقیر اپنے سارے حقوق سے دستبردار ہو کر فرائض کی ادائی میں منہمک ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے ذمے اس کے کیا کیا حقوق بنتے ہیں، اس کی طرف اس کی نظر جاتی بھی ہو گی تو وہ اس کی ہوا تک نہیں لگنے دیتا کہ اس پر اس وقت کیا بیتتی ہے جب لوگ اس کے حقوق کی نہیں، اپنے فرائض کی نہیں، اپنے حقوق کی اور اس کے فرائض کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے حقوق اللہ سے وابستہ کئے، اپنے فرائض میں منہمک رہتا ہے۔ اس کے انہماک کو اس بندے کی فریادی پکار بھی ڈسٹرب نہ کر پا رہی تھی کہ:

                ’’پتر اوے مجھے ان کو صرف ایک نظر دیکھ لینے دو۔‘‘

                میں نے دیکھا کہ مرشد کریم نے بظاہر کوئی ایسا تاثر نہ دیا جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ اس بات کو سن بھی رہے ہیں وہ جو ذہن میں چھپی باتوں کو تک کو جاننے کی قدرت رکھتے ہیں، بعض اوقات اتنے انجان سے بن جاتے ہیں جیسے انہیں اپنے ارد گرد ہونے والی باتوں کا کوئی علم ہی نہیں۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔

                وہ ایک مریض کو دیکھنے میں پوری پوری منہمک تھے۔ ان کی توجہ کا دائرہ صرف اسی ایک مریض کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔ اس وقت ان کی توجہ صرف اس مریض پر مبذول تھی جو ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ صاحب خود ہی ٹھنڈے سے پڑ گئے اور پیچھے کھسک کر لائن میں سب سے پیچھے کی طرف چلے گئے۔ کہاں تو یہ جوش و خروش اور کہاں یہ پسپائی۔ مجھے آج اکثر باتیں عجیب سی لگ رہی تھیں۔

                قاضی صاحب اپنی انتظامی سرگرمیوں میں جتے ہوئے تھے۔ ایک صاحب نے میرے مراد سے اپنے یہاں آنے کو مدعو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ وقت ہمارے لئے بھی تو نکالیں۔ اس پر بڑے دھیمے لہجے میں مسکراتے ہوئے فرمایا:

                ’’بھئی اب میں بڑا آدمی بن گیا ہوں۔ شیڈول کے بغیر نہیں چلتا۔ آپ قاضی صاحب سے بات کر لیں۔‘‘

                کہنے میں کچھ ایسی بات تھی کہ سب ہی ہنس پڑے۔

                مردوں کے بعد خواتین کو دیکھنے اور ان کے مسائل کے حل کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ تقریباً گیارہ بجے تک چلتا رہا۔ مریض ختم ہو گئے تو سلسلے کے بھائی بہنوں نے ملنا شروع کر دیا۔ وہ سب آ کر ادب سے خاموشی سے گھیرا ڈال کر نیم دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ 

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔