Topics

مردوں نے عورتوں پر بہت ظلم کئے ہیں


                خواتین کے ہمراہ بچے بھی تھے۔ بچے ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ ان کو دیکھتے ہوئے فرمایا:

                ’’بچے کے اندر ایک جوان آدمی چھپا ہوتا ہے۔‘‘

                اور کہا:’’بھئی! ان بچوں کو آئس کریم کھلایئے۔‘‘

                یہ کہہ کر جیب سے کچھ رقم نکال کر نیاز صاحب کو دی۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور زبیر عزیز کو متوجہ اور مستعد پا کر آئس مہیا کرنے کی ذمہ داری ان کے حوالے کر دی۔ وہ پارک میں موجود سٹال کی طرف گئے۔

                ایک صاحب نے عورت کے آدم کی پسلی سے بننے کا تذکرہ کیا۔ اس پر فرمایا:

                ’’عورت کے بارے میں یونہی کہا گیا ہے تا کہ عورت کی توہین کی جا سکے کیونکہ پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے۔‘‘

                اپنے قریب آنے والوں کے افکار میں ہر الجھاوے کو دور اور ہر ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنا انہوں نے خود پر جیسے فرض کر لیا ہے۔ یہ اتنا بڑا معاملہ کیسے چھوڑ دیتے۔

                کہا:’’مردوں نے عورتوں پر بہت ظلم کئے ہیں۔ انہیں زندہ گاڑا۔ سر بازار خریدا اور بیچا۔ حالانکہ عورت ہی نے پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دیا۔‘‘

                ’’دراصل اللہ نے ہر شئے دو رخوں پر پیدا کی ہے۔ جب آدم اپنے اندر دیکھتا تھا تو اس کو اپنا باطنی رخ ’عورت‘ یعنی چھپا ہوا رخ نظر آتا تھا۔ آدم نے اللہ کے دیئے ہوئے اختیار سے اس باطنی رخ کو ظاہر کر دیا اور یہ رخ عورت کہلایا۔ اس وقت مرید کے ذہن میں جانے کہاں سے فروالے دستانے کا تصور آ گیا۔ شاید ان کے ہاتھ کے اشارے سے یا ان کے روحانی تصرف کے تحت مرید نے عرض کی:

                ’’جیسے فروالے دستانے کو الٹ دیا جائے تو بالوں والی سطح اندر چلی جاتی ہے اور اندر والی چھپی ہوئی سطح باہر آ جاتی ہے۔ اس طرح؟‘‘

                فرمایا:’’جی ہاں۔ اسی طرح۔ عورت میں باطنی رخ مرد ہو گیا اور یہی ان دونوں کے درمیان کشش کا سبب ہے۔‘‘

                تھوڑی دیر بعد ایک اور سوال ہوا:

                ’’حضور لیکن عورتوں کو نبوت تو نہیں ملی نا؟‘‘

                فرمایا:’’جی ہاں۔ عورتوں کو رسالت نہیں ملی۔ نبوت تو ملی۔ عورتوں کو بھی نبوت عطا کی گئی تھی جیسے حضرت مریم کو۔ دراصل عورت کی جسمانی ساخت رسالت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ رسالت اور نبوت کے علوم میں فرق ہے۔‘‘

                اتنے میں زبیر عزیز نے آ کر اطلاع دی کہ یہاں آئس کریم دستیاب نہیں ہے اس پر فرمایا کہ:

                ’’واپسی پر راستے میں آئس کریم خریدیں اور مراقبہ ہال جا کر ان کو کھلائیں۔‘‘

                واپسی کے لئے اٹھے تو چاند بادلوں کو منور کرنے کے لئے ان کی اوٹ ل ے چکا تھا۔ بادلوں کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پھولوں بھرے کھیت ہوں۔ مرید نے مراد کے ہمراہ قدم اٹھاتے ہوئے علم لدنی کی بابت کچھ جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر فرمایا:

                ’’علم لدنی کے چھیالیس ابواب ہیں۔ ہر نبی ان میں سے کچھ ابواب پڑھتا ہے۔ انہی کی بنا پر ان کے درجات کا تعین ہوتا ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ بعض نبیوں کو بعضوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ تکوین کے بندوں اور پیغمبروں میں اس لحاظ سے تو کوئی فرق نہیں ہوتا کہ دونوں ایک ہی کورس پڑھتے ہیں۔ فرق صرف تقرر اور چناؤ کا ہوتا ہے۔ جیسے تمام MBBSکرنے والے ڈاکٹر ہوتے ہیں مگر سول سرجن وہی ہوتا ہے جس کو ایک اختیار کے تحت مقرر کیا گیا ہو۔‘‘

                ’’قرآن میں چھبیس انبیاء کا تذکرہ ہے ہر نبی کسی نہ کسی ایک باب میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام خوابوں کے بارے میں، لقمان علیہ السلام حکمت کے بارے میں، سلیمان علیہ السلام تسخیر کے بارے میں……‘‘

                ’’حضرت یوسف کے بھائی بھی پیغمبر تھے لیکن انہوں نے اس علم کے کم ابواب پڑھے تھے۔ رمل، جفر، فلکیات اور علم سیارگان بھی اسی علم کے ابواب ہیں۔ خواب چالیسواں باب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں جس بندے کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ ابواب کی تعلیم حاصل کر چکا تھا، اسی لئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پاس گئے تھے۔

                یہ کہتے کہتے پارکنگ میں پہنچ گئے۔ وہاں سے گاڑیوں میں سوار ہوکر مراقبہ ہال پہنچے۔ مراقبہ ہال میں آئس کریم کھاتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے یہ منظر وہ اس سے پیشتر بھی کہیں دیکھ چکا ہے۔ سوچنے کے باوجود کوئی سرا نہ ملا۔ اس نے مرشد کی طرف دیکھا۔ انہوں نے میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب کا تذکرہ کیا۔

                ’’وہ بہت مہمان نواز ہیں۔ لوگ لاہور جاتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘

                اس کے ساتھ ہی وہ پورا منظر حافظے میں ابھر آیا۔ ہم لاہور میں اپنے مراد کے ہمراہ پھولوں کی نمائش دیکھ کر واپس آ رہے تھے تو مراد نے اصرار کر کے بچوں کے لئے آئس کریم خریدی تھی اور وہ ہم نے لاہور مراقبہ ہال کے سبزہ زار لان پر بیٹھ کر اس وقت کھائی تھی جب رات ڈھلے اوس قطرے بن کر ٹپک رہی تھی اور آئس کریم کھاتے ہوئے مریدوں کو مراد بتا رہا تھا کہ دائرے سے مراد وہ حرکت ہے جو لگاتار جاری رہے اور مثلث سے مراد وہ حرکت ہے جو ایک خاص فاصلے کے بعد رخ بدل لے۔ واہمہ سے خیال، خیال سے تصور اور پھر مادی وجود یہ سب مثلث کی حرکات ہیں کیونکہ ان میں رخ بدلنے سے زاویے پیدا ہوئے۔ انسان مثلث کی مخلوق ہے۔ مثلث کی وجہ سے اس کی سکت زیادہ ہوتی ہے اور اس لئے جب وہ دائرے میں داخل ہوتا ہے تو باقی سب دائروں سے آگے نکل جاتا ہے۔ آپ دائرے کو کاٹیں۔ باقی مثلث رہی۔ جنات دائرے کی مخلوق ہیں اور انسان مثلث کی۔ مثلث درحقیقت ڈائمینشن اور حدود کا نام ہے۔‘‘

                نیاز صاحب نے میاں صاحب کے تذکرے پر ان کے محنتی اور کارکن ہونے کی بات کہی اس پر فرمایا:

                ’’آپ ان کو کوئی کام کہہ دیں پھر دیکھیں وہ اکیلے ہی اس کو کر ڈالیں گے۔ آدمی تو وہ سنگل پسلی کے ہیں مگر کام بڑے بڑے کر ڈالتے ہیں۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔