Topics
اس وارد ہونے کا ایک واقعہ خود اس مرید پر بھی گزرا۔ ایک بار مرشد کریم نے
ارشاد فرمایا کہ:
’’بعض خیال ایسے ہوتے ہیں جو آدمی کو لٹا دیتے ہیں۔‘‘
مرید کے تشکیک زدہ ذہن میں آیا، بھلا وہ خیال کیسے ہوتے ہونگے جو آدمی کو
لٹا کر رکھ دیتے ہونگے۔ مرید گھر آیا۔ اس کو ایک خط موصول ہوا۔ خط کے ہمراہ ایک
لاکھ بیس ہزار روپے کا ایک ڈرافٹ تھا۔ ہدایات یہ تھیں کہ اس ڈرافٹ پر دستخط کر کے
فوراً واپس بھجوائیں۔ اگلے روز اسے جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ اگر یہ دستخط
شدہ ڈرافٹ اگلے روز وہاں نہ ہوا تو بڑی پریشانی ہو جائے گی۔ لائسنس کینسل ہو جائے
گا وغیرہ وغیرہ۔
مرید نے دستخط کر کے ڈرافٹ کو لفافے میں ڈالا اور لے کر کوریئر کمپنی کے دفتر
چلا گیا۔ انہوں نے کہا ہم ڈرافٹ وغیرہ نہیں لیتے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ ڈرافٹ ابھی
آپ ہی کی معرفت تو ملا ہے۔ جب آپ وہاں سے یہاں لا سکتے ہیں تو لے جانا بھی
چاہئے۔ بات بڑھ گئی۔ انہوں نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں
ہم یہ لفافہ نہیں لے جانے کے۔
اب معاملہ سیریس ہونا شروع ہو گیا۔ دوسری کوریئر سروس کے دفتر رجوع کیا، نہ
جانے کیا بات تھی کہ انہوں نے بھی لفافہ کھول کر دیکھنے پر اصرار کیا اور ڈرافٹ دیکھ
کر انکار کر دیا۔ ان سے کہا بھی کہ یہ سرکاری معاملہ ہے اور پھر CROSSڈرافٹ ہے۔ آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ ہم آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں،
مگر نہ نہ ہی رہی۔ اس میں شام کے چار بج گئے۔
کسی دوسرے دفتر کی تلاش میں جا رہا تھا کہ ایک صاحب جاننے والے ملے، انہوں نے
چہرے پر اڑتی ہوائیاں دیکھ کر ماجرا دریافت کیا۔ پورا قصہ سن کر کہا کہ یہ کیا
مشکل ہے۔ ادھر لاؤ یہ لفافہ اور ڈرافٹ نکال کر اس لفافے کو پھاڑ کر نیا لفافہ
منگوا کر اس پر پتہ لکھا۔ ڈرافٹ اس میں ڈالا اور کہا:
’’آئیں۔‘‘
پوچھا۔ ’’کہاں……؟‘‘
’’وہیں جہاں سے اسے بھجوانا ہے۔‘‘
قصہ مختصر کہ وہ اس مرید کو ساتھ لے کر دوچار دفاتر میں گئے۔ انہیں بھی انکار
ہوا۔ اب شام کے چھ بج چکے تھے اور سات آٹھ بجے تک اگر یہ لفافہ روانہ نہ ہوا تو
کل کسی قیمت نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اتنے میں ان صاحب کو ایک دوست کا خیال آیا، وہ
کسی کوریئر سروس کے مالک تھے۔ ہم ان کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں ان کے وہ دوست دروازے
پر ہی مل گئے۔ ان سے خیر و عافیت کے بعد لفافہ ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے رسید دی
اور لفافہ اٹھا کر نہایت لاپروائی سے ایک بوری نما تھیلے میں پھینک دیا۔ پوچھا۔
جہاز کتنے بجے جائے گا، انہوں نے کہا گیارہ بجے۔ چلیں خیر ہو گئی۔
یہ مرید ان صاحب کو لے کر سیدھا اپنے گھر لے آیا۔ ان کی تواضع کی۔ ان کا شکریہ
ادا کیا کہ ان کی مدد سے یہ مسئلہ حل ہوا وغیرہ۔ ان صاحب نے اصرار کیا کہ انہوں نے
کہیں جانا ہے۔ اس لئے آج گپ شپ نہیں کرتے، وہ پھر کسی اور روز آئیں گے۔ مرید نے
دو چار بار اصرار کیا۔ انہوں نے انکار کیا۔ اب شک نے مرید کے ذہن کو اپنی گرفت میں
لے لیا۔ یہ بندہ بیٹھ جائے تو جانے کا نام ہی نہیں لیتا، آج یہ جانا کیوں چاہ رہا
ہے؟ کہیں یہ اپنے اسی دوست کے پاس جا کر وہ ڈرافٹ تو نہیں لینا چاہ رہا؟ اب ایک
جنگ چھڑ گئی، ان صاحب کا اصرار کہ انہیں کام سے جانا ہے، اس کا اصرار کہ کھانا کھا
کر جائیں۔ خیر وہ نہ مانے۔ یہ انہیں بظاہر بہت تپاک سے رخصت کرنے گیا۔ جہاں انہوں
نے جانا تھا، انہیں خود پہنچانے گیا۔ صرف اسی وسوسے اور اندیشے کے تحت کہ کہیں یہ
وہیں نہ چلے جائیں اور جا کر ڈرافٹ نہ لے لیں۔ وہ جس جگہ اترے یہ انہیں کھڑا دیکھتا
رہا، پھر اپنے گھر آ گیا۔ رات کے دس بج گئے۔ اب اس کے ذہن میں شک ایک آکاس بیل کی
مانند پھیل رہا تھا۔ وہ صاحب وہاں سے اتر کر جس گھر گئے، اس گھر کے پچھلے دروازے
سے نکل کر اس کوریئر سروس کے دفتر تک پہنچنے میں انہیں دس منٹ لگے ہونگے۔ انہوں نے
اپنے دوست کو کوئی کہانی سنا کر اس لفافے میں سے ڈرافٹ نکال لیا ہو گا اور اب وہ
اس کو کیش کروانے کو بھاگ دوڑ کر رہے ہوں گے۔ مجھے ان سے بات ہی نہیں کرنا چاہئے
تھی۔ وہ پیسے کے معاملات میں ہیں بھی کچھ ندیدے سے اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ پریشانی
کے ہاتھوں کچھ سمجھ میں بھی نہیں آ رہا تھا۔ کہ کیا کریں۔ بیوی، بچے سو گئے تھے۔ یہ
ٹہل رہے ہیں مگر ذہن میں ایک ہی خیال کہ وہ صاحب ڈرافٹ لے کر بھاگ گئے ہوں گے۔ خود
کو کوس رہے ہیں۔ رات کے دو بجے تک یہی بے چینی رہی۔ بالآخر نڈھال ہو کر لیٹ گئے
اور دعائیں کرنے لگے۔ اے اللہ! تو اس آفت سے نجات دے۔ صبح اذان کی آواز پر آدھے
سوئے، آدھے جاگے۔ اٹھے کہ ایک آواز کان میں آئی:
’’ایسے ہوتے ہیں وہ خیال جو آدمی کو لٹا کر رکھ دیتے ہیں!‘‘
یا بدیع العجائب، یہ تو کیفیت وارد ہو گئی۔ الٰہی میری توبہ۔ آئندہ کبھی مرشد
کریم کی بات پر اس طرح گستاخانہ انداز میں معترض نہیں ہوؤنگا۔ استغفراللہ، آج بھی
وہ اذیت ناک رات یاد آتی ہے، تو خیال کی طاقت کا مزید معترف ہو جاتا ہوں۔
یہ شک اور بے یقینی ہی تو ہے جو انسان میں بیماریوں کی صورت میں اپنا اظہار
کرتی ہے۔ یہ شک اور بے یقینی ختم ہو جائے تو انسان پر یقین اور پر امید ہو جاتا
ہے۔ امید کا تارا اگر بندوں سے جڑ جائے تو بندہ خود فریبی کا شکار ہو کر مایوس
ہوتا ہے اور اگر امید کا تار اللہ سے جڑ جائے تو بندے کے اندر استغنا کا درخت شاخ
در شاخ پھیلتا جاتا ہے اور جوں جوں اس درخت کا پھیلاؤ بڑھتا ہے، بندہ اس کی گھنی
ہوتی چھاؤں کے مزے سمیٹنے لگ جاتا ہے۔ چھاؤں ایک طرف آرام و سکون سے وابستہ ہے تو
دوسری طرف اس میں پناہ اور تحفظ کا احساس بھی فزوں تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔