Topics

مجسم تصویر کی باتیں


                اطلاعات کی وصولی کی بات کرتے کرتے فرمایا:               

                ’’ایک بار میں اپنے پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیاء کے ہمراہ جا رہا تھا۔ وہ ایک پان کی دکان پر رکے۔ پان خرید کر مڑے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں لگی ہوئی ایک تصویر مجسم ہو کر حضور قلندر بابا اولیاء کے ہمراہ چل رہی ہے اور کچھ باتیں کر رہی ہے۔ حضورؒ اس کی باتیں سنتے رہے پھر وہ پلٹ گئی۔ میں نے یہ سب کچھ دیکھ کر حضورؒ سے دریافت کیا۔ حضورؒ میں نے یہ دیکھا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ وہ تصویر مجھ سے پان والے کی شکایت کر رہی تھی کہ یہ پان والے کتھے میں خون ملاتا ہے۔ اس کے پان آپ کے کھانے کے نہیں اور دوسرے یہ کہ لوگ اس کو ہوسناک نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘

                عرض کی پان والے کتھے میں خون کیوں ملاتا تھا؟

                ’’اس سے پان کا ایسا ذائقہ بن جاتا ہے کہ وہ کسی اور چیز کا نہیں ہوتا اور آدمی اسی ذائقے کی خاطر اسی مخصوص دکان سے پان خریدتا ہے۔‘‘

                حضور اٹھ کر باہر نکلے تو یکدم یوں لگا کہ باورچی خانہ خالی ہو گیا ہے۔ آپ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ہم وہیں بیٹھے رہے۔ میرے ذہن میں باورچی خانے کے اس خالی پن کے احساس کے بارے میں تجسس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا مگر دھیان بٹا ہی رہا۔ وہاں ایک صاحب چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے چہرے پر ایک عجیب سی مٹھاس اور اپنائیت۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ وہ مظفر آباد سے آئے تھے۔ حکومت آزاد کشمیر میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ حیرت سی ہوئی۔ ان میں افسر شاہی کی خوبو نہ تھی۔ اس وقت تو ذہن میں یہی بات آئی کہ یہ صاحب بھی اپنی کسی پریشانی کے حل کے لئے ہی فقیر کے در پر آئے ہوں گے مگر ان کی باتوں میں ان کے انداز میں یہ بات ضرور تھی کہ وہ مرشد کریم کی باتوں میں دلچسپی لے رہے تھے اور شاید یہی وہ قدر مشترک تھی جس کی بنا پر اپنائیت کا احساس ہوا تھا۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔