Topics

بیس ہزار فرشتے


                کائناتی پروگرام پر اللہ کے کئے گئے انتظامات کی بابت سمجھاتے ہوئے فرمایا:

                ’’اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے ڈسپوزل پر بیس ہزار فرشتے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ جیسے نالائق افسر کے ماتحت بے کار رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح وہ لوگ جو اپنے فرشتوں سے کام نہیں لیتے، ان کو بھی بے کار کر دیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کسی جگہ سے دو چار آدمی چلے جائیں تو وہ جگہ بے رونق لگنے لگتی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ فرشتے ہی ہیں۔ یعنی چار آدمی گئے تو ہواں سے اسی ہزار فرشتے کم ہو گئے اور اسی طرح اگر چار آدمی آئے تو ان کے ہمراہ اسی ہزار فرشتے بھی تو آئے۔‘‘

                مرید نے سوچا کہ بعض اوقات ایک ہی آدمی آتا ہے تو گھر بھرا ہوا لگتا ہے، رونق اور نکھار آ جاتا ہے اور ایک آدمی کے جانے سے گھر تو گھر، پورا شہر، پورا سنسار بھائیں بھائیں کرنے لگتا ہے، تو کیا ایسے لوگوں کے ساتھ فرشتے زیادہ ہوتے ہیں۔ قلندر بابا اولیاء کا فرمودہ دھیان میں آیا کہ:

                ’’اولیاء کرام میں سے بعض کو پچیس جسم دیئے جاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں یہ جسم چالیس تک بھی ہو جاتے ہیں۔‘‘

                یعنی اس حساب سے پانچ لاکھ سے لے کر آٹھ لاکھ فرشتے۔ جی میں آئی کہ پوچھا جائے کہ حضور آپ کے ہمراہ کتنے فرشتے ہوتے ہیں، مگر جرأت نہ ہو سکی۔

                ایک بار میرا مراد آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گیا کہ انہوں نے جو بس پکڑنا ہوتی ہے، اس کا نمبر صاف نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر نے آنکھیں ٹیسٹ کیں اور ازراہ تففن کہا:

                ’’آپ کی آنکھیں توٹھیک ہیں، آپ کیا فرشتوں کو دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘

                اس پر اس کو کہا:

                ’’وہ تو میں دیکھتا ہی ہوں، مجھے تو آپ کی بسوں کے نمبر پڑھنے میں نہیں آتے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔