Topics

دادا حضرت مولانا خلیل احمد انصاری مہاجر مدنیؒ کا واقعہ


                پھر ایک واقعہ اپنے دادا حضرت مولانا خلیل احمد انصاری مہاجر مدنیؒ کا سنایا کہ:

                ’’والد صاحب نے ایک زمین کا ٹکڑا اپنے سسر سے خریدا۔ انہوں نے کہا کہ میں زمین تمہارے نام پر منتقل کرنے کی بجائے بیٹی کے نام ہبہ کر دیتا ہوں تا کہ میرا بھائی حق شفع کا دعویٰ نہ کر سکے۔ والد صاحب نے کہا۔ واہ پیسے ہم دیں اور زمین آپ بیٹی کو دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ نہیں مانے تو ان کے سسر نے انتقال زمین کے کاغذات داخل کر دیئے۔ ان کے بھائی نے حق شفع کا دعویٰ کر دیا۔ مقدمہ شروع ہو گیا۔ دیوانی مقدمہ تھا۔ اس اثناء میں والد صاحب کے حج پر جانے کا پروگرام بن گیا۔ اس زمانے میں حج پر جانے آنے میں مہینوں لگا کرتے تھے۔ وہ جاتے ہوئے مختار نامہ اپنے والد یعنی دادا ابا کو دے گئے۔ پیشی کی تاریخ آئی تو دادا جی نے پیشی پر جا کر کہا کہ میں انتظار کا قائل نہیں۔ اس مقدمے کا فیصلہ آج ہی ہونا چاہئے۔ جب بات لمبی ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے مدعی کو مخاطب کر کے پوچھا۔ کیا تو سچ کہتا ہے کہ یہ زمین تیری ہے اور تجھ ہی کو ملنی چاہئے؟ اس نے اقرار کیا۔ انہوں نے اس سے حلف لیا۔ اس نے حلفیہ کہہ دیا۔ انہوں نے لکھ کر دے دیا کہ آج سے یہ زمین اس کی ہوئی۔ اب ہوا یہ کہ کچھ عرصے بعد اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ وہ معذور ہو کر پڑ گیا۔ بیوی کے جی میں جانے کیا آئی وہ چھوڑ کر چلی گئی۔ بیٹی کو طلاق ہو گئی۔ بیوی کو چوری کی لت لگ گئی۔ وہ جہاں بھی جاتی کچھ نہ کچھ چوری کر لیتی اور پکڑی جاتی۔ بے عزتی اٹھاتی۔ بے عزتی اٹھاتے اٹھاتے بھیک مانگنے لگی۔ یہ خود بیمار ہوئے۔ پورے جسم پر ایسے متعفن پھوڑے نکل آئے کہ الامان۔ کوئی پاس تک نہیں پھٹکتا تھا۔ ایک عیسائی جراح اپلوں کی راکھ دور کھڑے کھڑے ان پر چھڑک دیا کرتا۔ اس سے ان کو قدرے سکون ملتا۔ وہ اسی حالت میں مر گئے۔ وہ زمین وہیں کی وہیں رہ گئی۔ ٹھنٹھہ کی ٹھنٹھہ، بے آباد اور ویران پڑی ہے اب تک۔ ادھر ہم سب بہن بھائیوں کے اپنے اپنے مکان ہیں۔ بہن کی جتنی اولادیں ہیں، آگے ان کے اپنے اپنے مکان ہیں۔‘‘

                یہ قصہ سنا کر فرمایا:

                ’’اپنا مکان ہونا چاہئے مگر جائیداد نہیں۔ جائیداد ہو گی تو اولاد ضرور لڑے گی۔ جائیداد کے باعث رشتوں میں ایسی دراڑیں پڑ جاتی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ جائیداد چھوڑنا اولاد کے ساتھ برا کرنا ہے۔‘‘

                ’’اس کے برعکس یہ دیکھیں کہ میراں جی بھیکؒ بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے دادا سے خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنی چادر تان کر ان کے پورے گھر کو اس کے نیچے کھڑا کیا اور ان کے لئے دعا کی۔‘‘

                فرمایا:’’یہ اسی دعا کا اثر ہے کہ ہمارے خاندان کا ہر فرد اپنے اپنے شعبے میں کمال فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ان کے دماغ خوب کام کرتے ہیں۔ عام انجینئر ہوتے ہوئے وہ اپنے اپنے شعبوں کی سربراہی کرتے ہیں۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔