Topics
آج چارسدہ جانا طے تھا۔ چارسدہ کے لئے روانہ ہوئے۔ چارسدہ پشاور کے قریب ضلع
مردان کی ایک تحصیل تھی، آج کل ضلع ہے۔ پشاور سے وہاں تک دہری سڑک ہے۔ راستے میں
بخشی پل ہے۔ یہاں کے چپل کباب بہت مشہور ہیں۔ مردان اور پشاور سے لوگ یہاں صرف چپل
کباب کھانے آتے ہیں۔ اس سے آگے ناگمان کا پل ہے جو دریائے کابل پر بنا ہوا ہے۔
اس پل کے قریب تازہ مچھلی کی دکانیں ہیں۔ آپ خرید کر گھر لے جائیں یا وہیں تلوا
کر کھائیں۔ پکنک کی پکنک اور سفر کا سفر۔ راستے کے دونوں طرف زیادہ تر گنے کے کھیت
ہیں۔ گنا اور تمباکو اس علاقہ کی نقد آور فصلیں ہیں اور اس علاقے کی زرخیزی تو
دور تک پھیلے سبزے کی گہری رنگت سے ہی ظاہر ہو رہی تھی۔
چارسدہ ایک تاریخی قصبہ ہے۔ یہ زمانہ قبل مسیح میں بھی اس مقام پر موجود تھا۔
اس کا قبرستان پاکستان کے قدیم ترین قبرستانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے بازار سے
گزرے تو نیاز صاحب نے بتایا کہ یہاں کی پشاوری چپلیں بہت مشہور ہیں۔ چارسدہ میں ایک
شوگر مل اور ایک پیپر مل ہے۔ یہاں کی پیپر مل ایشیاء بھر کی سب سے بڑی پیپر مل
ہونے کے باوجود ملکی ضروریات کے مطابق کاغذ پیدا نہیں کر رہی۔ وجہ وہی کہ انتظام دیانت
کا متقاضی ہے اور وہی ناپید ہے۔ ارد گرد کے علاقوں میں تمباکو نہ صرف نقد آور جنس
کے طور پر اگایا جاتا ہے بلکہ اس کی کھپت کے لئے کئی ایک سگریٹ فیکٹریاں بھی یہاں
قائم ہیں اور بعض مشہور فیکٹریوں کے کئی کئی گودام ہیں۔ صوبہ سرحد کے کئی مشہور سیاسی
لیڈر بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے اس کا نام پشکلاوتی تھا، بعد میں ہشت
نگر کہلایا اور آج کل ان چار دریاؤں کی مناسبت سے اس کو چارسدہ کہتے ہیں جو اس
خطہ ارض میں سے گزر کر دریائے کابل میں جا گرتے ہیں۔
پشاور مردان روڈ پر واپڈا کے ایک تربیتی سنٹر کی عمارت میں نیاز صاحب کی رہائش
گاہ پر اترے۔ اس وقت تک ہمارے ذہن میں یہی تھا کہ نیاز صاحب مرشد کریم کو اپنا گھر
دکھانے لا رہے ہیں مگر وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ انہوں نے وہاں کچھ ہی عرصے میں
کس قدر کام کر لیا ہے۔ تین چار سو آدمی ان کے مرشد کریم سے ملنے، انہیں دیکھنے
آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے گھر کے لان ہی میں سب کے بیٹھنے کا بندوبست کیا اور
بعد از نماز مغرب، اپنے مرشد کے خطاب کا پروگرام ترتیب دے دیا۔ کچھ لوگ روایتی
انداز کے پیر صاحب کو ذہن میں رکھے۔ وہاں آئے تھے تو کچھ ان کو ایک عظیم روحانی
ہستی مان کر۔ کچھ نیاز صاحب سے سنی ہوئی باتوں کی تصدیق کرنے اور کچھ محض ایک ولی
اللہ کی زیارت کرنے۔ ک چھ ان سے اپنے دکھوں کا درماں کروانے اور کچھ ان کے علم سے
آگاہی حاصل کرنے۔ کچھ ایک اس تاڑ میں تھے کہ یہ کوئی قابل گرفت بات کہیں تو وہ اس
کی پکڑ اور تکذیب کریں۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔