Topics

آواگون(Reincarnation)


                میں نے اس دیہاتی سے ماحول میں اپنے مراد کو لوگوں سے ملتے، ان کی باتیں سنتے، ان کے لئے علاج تجویز کرتے ہوئے دیکھ کر سوچا کہاں امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے ریسرچ سکالروں سے علمی گفتگو اور کہاں صوبہ سرحد کے ایک قصبے میں اپنے مشن کی ترویج کی کوششیں، یہ سب انہیں کا جگرا ہے۔ مجھ کو اپنے مراد کی کہی ہوئی ایک بات یاد آئی۔ وہ اپنے دورہ یورپ کے تاثرات بتا رہے تھے۔ فرمایا:

                ’’وہاں جتنے بھی لوگ ملنے آئے سب نے علمی نوعیت کے سوال پوچھے۔ یہاں جو آتا ہے پیٹ درد اور خانگی الجھنوں میں ہی گھرا ہوتا ہے۔‘‘

                اور بتایا کہ انگلینڈ میں ایک صاحب ملنے آئے۔ وہ آواگون پر ریسرچ کر رہے تھے۔ انہوں نے آواگون(Reincarnation) کے 2500کیس اسٹڈی کئے تھے۔ ان سے مترجم کے ذریعے کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت رہی۔ وہ اس نظریے کے بارے میں ان کا نکتہ نظر جاننے کا متمنی تھا۔ فرمایا:

                ’’میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جو کیس دیکھے ہیں ان میں کس عمر کے لوگ دوبارہ جنم کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 8سال کی عمر تک کے بچے اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے بعض کیسوں میں ان کے جسموں پر وہی نشان ک دیکھے ہیں جو مرے ہوئے آدمی کے جسم پر ہوا کرتے تھے اور انہیں یہ دعویٰ ہوتا تھا کہ وہ اسی مرے ہوئے آدمی کا دوسرا جنم ہیں۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ اس سے بات اور بھی صاف ہو گئی۔ دیکھیں انسان کا اس دنیا میں آنا آدم کا ریکارڈ ہے۔ یہ وہ ریکارڈ ہے جو انسانی لاشعور کو فیڈ ہوتا ہے اور انسانی لاشعور کی مشین اس ریکارڈ کو ایک پرنٹنگ مشین کی طرح چھاپ رہی ہے۔ جب ایک انسان کا ریکارڈ کسی دوسرے انسان کے ریکارڈ سے مکس ہوجاتا ہے تو اس قسم کے مظاہرے سامنے آتے ہیں جس قسم کے آپ نے اپنے کیسوں میں اسٹڈی کئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دوبارہ آنے کا دعویٰ کرنے والا بچہ 8سال کی عمر کے بعد جب اس کا دنیاوی شعور توانا ہونا شروع ہو جاتا ہے تو وہ اس دعویٰ سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ اس پر جب ان صاحب نے جسمانی نشانات کے حوالے سے اپنی بات پر اصرار کیا تو میں نے ان سے کہا کہ یہ نشانات ہی تو میری بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پہلے ایک شخص کا ریکارڈ بنا۔ جب لاشعور کی مشین پر دوسرا مشین چھپ رہا تھا تو اس وقت سابقہ ریکارڈ کا عکس اس پر پڑا اور وہ نشانات جو پہلے والے ریکارڈ میں موجود تھے اس پر بھی چھپ گئے۔‘‘

                ان صاحب کی بابت یہ تبصرہ بھی کیا کہ:

                ’’ وہ یہ مانتے تھے کہ آپ کی بات میں وزن ہے۔ میں اس پر سوچوں گا لیکن میں ان ڈھائی ہزار کیسوں کا کیا کروں جو میں خود تلاش کر کے دیکھ چکا ہوں۔ اصل میں ان کا ذہن اس نتیجے سے ہٹنے پر تیار نہیں تھا جو انہوں نے اتنی محنت اور ریسرچ کے بعد اخذ کر لیا تھا۔‘‘

                انگلینڈ ہی میں کسی سائنس دان سے اپنی گفتگو کے حوالے سے بتایا تھا:

                ’’وہ لوگ خدا کو نہیں مانتے۔ الیکٹرون کو مانتے ہیں حالانکہ وہ بھی تو نظر نہیں آتا۔ عجیب بات ہے الیکٹرون کو، جو غیب ہے مان لیں گے، خدا کو نہیں مانیں گے۔ بھئی! اگر ان دیکھی چیز ہی کو ماننا ہے تو خدا ہی کو کیوں نہیں مان لیتے؟‘‘

                انگلینڈ میں جن کے ہاں ٹھہرے وہ میرے مراد کو اپنے ایک جاننے والے سے ملوانے لے گئے۔ ان کو وہاں چھوڑ کر وہ خود کسی کام سے چلے گئے۔ جن کے گھر گئے وہ صاحب انہیں اپنے عالی شان، سجے ہوئے، اظہار امارت میں بڑھے ہوئے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر، خود اپنے شغل میں مصروف ہو گئے۔

                فرمایا:’’میں کرسی گھما کر ان کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا۔ اس پر شائد انہیں احساس ہوا کہ انہیں ایسے رویے کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ میں نے آپ کو اتنے قیمتی قالین پر بٹھایا، اس قالین کی قیمت یہ ہے، اس صوفے کی یہ قیمت ہے، اس ڈرائنگ روم کی سجاوٹ پر میں نے اتنے پاؤنڈ خرچ کئے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ یہ قالین کتنا بھی قیمتی ہو اس کو رہنا بہرحال پیروں کے نیچے ہی ہے اور جس چیز کا مقام پیروں کے نیچے ہو وہ بیش قیمت ہو کر بھی قیمتی نہیں رہتی۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔