Topics

تصور شیخ کا مراقبہ اور یوگا


                 ’’آپ مراقبہ میں تصور شیخ کرتے ہیں یہ تو بت پرستی ہی کی ایک قسم ہو گئی۔‘‘

                 اس پر آپ نے تصور شیخ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔

                ’’تصور شیخ کا اگر یہ مطلب لیا جائے کہ شیخ کی تصویر ذہن میں اجاگر ہو تو یہ بت پرستی ہوئی اور اگر دھیان شیخ کی طرف لگا دیا جائے تو اس کے ذہن سے رابطہ قائم ہونے پر اس کے اندر کام کرنے والی لہریں سالک میں منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔‘‘

                ایک اور صاحب نے یوگا اور مراقبہ میں فرق کی بابت دریافت کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا۔

                ’’جی ہاں! ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ یوگا پانچ ہزار سال پرانا علم ہے۔ انہوں نے اس کو پرانے انبیاء سے لیا پھر اس میں تحریف ہو گئی جیسی کہ بائبل میں ہوئی چونکہ قرآن میں نہیں ہوئی اس لئے عبارت بچ گئی۔ آپ ترجمے اور تفاسیر دیکھیں جس کا جتنا بس چلا ہے اس نے اپنا مطلب ڈال دیا ہے۔ آپ پانچ چھ مختلف تفاسیر پڑھ لیں آپ الجھ جائیں گے۔ اسی طرح یوگا میں بھی تحریف ہو گئی۔ یوگا میں اب محض اپنی طاقتیں بڑھانے اور ان کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا جاتا ہے جب کہ مراقبہ درحقیقت اللہ تک پہنچنے اور اس کا عرفان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘

                اتنے جامع الفاظ اور اتنا بھرپور انداز اتنے مدلل جواب سن کر وکلاء حضرات نے اپنے دلوں میں جو بھی محسوس کیا ہو مجھے یوں لگا جیسے ان کی نگاہوں میں میرے مراد کے لئے ایک گہری ستائش اتر آئی ہو اور اس کا اظہار بھی جلد ہی ہو گیا جب کئی وکلاء نے آپ کے آج کے لیکچر کی تعریف کی اور آپ کی کتب پر اظہار خیال کیا۔ ان کے لہجوں میں اب عقیدت کی آمیزش ہو چکی تھی۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔