Topics

لفظ ربنا اور الٰلھم کی حکمت


                ’’قرآن میں مذکورہ دعائیں لفظ رب، ربی یا ربنا سے آغاز ہوتی ہیں جب کہ حضور علیہ الصلوٰٰۃ والسلام سے منقولہ ادعیہ ماثورہ لفظ اللھم سے آغاز ہوتی ہیں۔ اس فرق میں جو راز اور حکمت پوشیدہ ہے اس کی وضاحت فرما دیں۔‘‘

                یہ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اگر کبھی کسی نے ان سے کوئی ایسا سوال پوچھا جس کے پوچھنے سے پیشتر اس نے خود اس پر بہت غور کیا ہو یعنی اپنا ہوم ورک اچھی طرح کرنے کے بعد سوال پوچھا گیا ہو تو مرشد کریم کے چہرے پر مسکراہٹ نہ صرف گہری ہو جاتی ہے بلکہ اس میں شفقت کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں پسندیدگی کی چمک جواب سے پہلے سوال کے سراہے جانے کا پتہ دیتی ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:

                ’’رب کا لفظ وسائل مہیا کرنے والی ذات کی صفت کے لئے اور اللہ اس ذات کا ذاتی نام۔ ایک میں وسائل اور دوسرے میں وسائل پیدا کرنے والی ذات۔ ایک میں طلب وسائل اور دوسرے میں ذاتی تعلق۔‘‘

                اور پھر یہ کہہ کر سراہا:

                ’’آپ کے کہنے پر میں نے سوچا۔ جو سمجھ میں آیا بتا دیا ہے۔‘‘

                میرے مراد کا یہ ایک ایسا عجیب انداز ہے جس پر میں ہمیشہ عش عش کر اٹھتا ہوں۔ وہ کتنی ہی بڑی بات کہیں، کتنا ہی بڑا انکشاف کیوں نہ کریں ان کے انداز میں کبھی بلند آہنگی نہیں ہوتی یعنی بات کی اہمیت کو وہ لہجے کی بلندی سے واضح نہیں کرتے۔ بات اپنی معنویت کے لحاظ سے کتنی ہی وزن دار کیوں نہ ہو یا کتنی ہی زبردست اہمیت کی حامل کیوں نہ ہو، کتنا ہی نیا انکشاف کیوں نہ ہو، وہ بات کو اتنے ہموار اور نرم انداز میں بیان فرمائیں گے کہ اگر سماعتیں بیدار اور آگہی حاضر اور چوکنا نہ ہو تو مفہوم کا ایک بھی موتی ہاتھ میں نہ آئے۔

                پھر ایک صاحب کا ذکر کیا کہ جب کوئی ان سے دریافت کرتا:

                ’’اے میاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

                تو وہ جواب میں کہتے:

                ’’نہ کہیں آ ریا ہوں نہ کہیں جا ریا ہوں۔ بس کھڑا کھڑا پچھتا ریا ہوں۔‘‘

                سب سن کر ہنس پڑے۔ میرا دل دھڑکا نہ جانے یہ ہم میں سے کس کی طرف اشارہ تھا۔ شاید مجھی سے کہا جا رہا تھا۔

                اسی نشست میں بتایا کہ:

                ’’چین میں ایک بار فیصلہ کیا گیا کہ پرندے اتنا اناج کھاتے ہیں اگر انہیں بھگا دیا جائے تو وہ تمام اناج بچ جائے گا، جو ان کی خوراک بنتا ہے۔ لہٰذا ساری قوم ٹین کنستر لے کر نکل کھڑی ہوئی۔ پرندے شور سے بہت گھبراتے ہیں جب لگاتار کئی دن تک ٹین کنستر بجے تو پرندے وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ اس سال فصلوں کو کیڑا لگ گیا۔ سارا اناج غارت ہوا۔ اب انہیں سمجھ میں آیا کہ پرندے ان کا اناج کھاتے نہیں بلکہ بچاتے تھے۔ پھر میٹنگ ہوئی فیصلہ ہوا کہ پرندوں کو واپس لایا جائے۔ چنانچہ پرندے امپورٹ کر کے چین میں لائے گئے۔‘‘

                میں نے قرآن کے الفاظ ’’اخاف ربہ‘‘ کے الفاظ میں خوف خدا کے مفہوم کی وضاحت پوچھی، اس پر فرمایا:

                ’’علیھم کی موجودگی میں ’’اخاف ربہ‘‘ تو قرآن میں اختلاف کی علامت ہو۔ یعنی یا تو آپ قرآن میں اختلاف مانیں اور یا پھر اپنے ذہنوں میں الفاظ کے مفہوم کو سیدھا کریں۔‘‘

                ہم سبحان اللہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔

                پھر کسی طرح کیمیا گری کا ذکر شروع ہو گیا۔ فرمایا:

                ’’کبھی کسی سے سونا بنا تو ہے نہیں۔ ہر بار یہی کہتے ہیں کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔‘‘

                پھر تذکرہ غوثیہ سے کیمیا گری کے حوالے سے دو واقعات سنائے اور پھر فرمایا:

                ’’حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھے سونا بنانا سکھایا تھا……مگر ساتھ میں یہ شرط لگا دی کہ جب تک تین دن کا مسلسل فاقہ نہ ہو جائے بنانا مت۔‘‘


Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔