Topics
میں نے دیکھا کہ میرا مراد ادھر ادھر گھوم کر بچھی دری پر آ کر بیٹھ گیا ہے
تو میں نے قریب جا کر راستے میں سوچی گئی بات کی تصدیق کے لئے پوچھا کہ حضور یہ
عورتیں سرخ رنگ کا لباس کیوں پہنتی ہیں؟ میرا خیال تھا کہ حضور وہی بات کہیں گے کہ
دور سے نظر آنے کو۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے فرمایا:
’’عورت کی تخلیق کچھ اس طرح کی ہے کہ اس کو سردی زیادہ لگتی ہے اور اس سردی کے
احساس کا مقابلہ وہ سرخ رنگ کے استعمال سے کرتی ہے۔ سرخ رنگ گرم ہوتا ہے۔‘‘
اب میرے ذہن میں مغرب کی وہ عورتیں بھی تھیں جن کے بدن پر لباس کی مقدار نہ
ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہیں سب سے زیادہ سردی پڑتی ہے اور اگر عورتوں کو سردی
زیادہ لگتی ہے تو ان کا لباس ادھورا اور مردوں کا پورا کیوں ہوتا ہے؟ میں یہ سوال
پوچھنے کو الفاظ منتخب کر ہی رہا تھا کہ مرشد کریم نے ارشاد فرمایا:
’’مغرب میں عورت کو مردوں نے بے وقوف بنایا ہے، اس لئے وہ ٹھٹھرتی بھی ہے اور
لباس بھی پورا نہیں پہنتی۔‘‘
چیڑھ کے بلند و بالا درختوں کو دیکھ کر آپ نے ہم سے پوچھا:
’’ان کی عمر کیا ہو گی؟‘‘
ہم کچھ اندازہ نہ کر سکے۔ اس پر فرمایا:
’’آپ اندازہ کریں یا کسی سے پوچھیں۔‘‘
پھر فرمایا:
’’یہاں حبس ہے اس کی وجہ آکسیجن کی زیادتی ہے۔ جب آکسیجن زیادہ ہو جاتی ہے تو
گرمی آ جاتی ہے اور جب آکسیجن کم ہو جاتی ہے تو موسم سرد ہو جاتا ہے۔‘‘
پھر کہا:’’اب آپ جا کر ادھر ادھر گھومیں پھریں اور دیکھیں۔ آپ مجھ سے تو
ملتے ہی رہتے ہیں، جا کر ادھر ادھر ان درختوں اور پودوں سے بھی ملیں۔‘‘
ہم سمجھ گئے کہ اب حضور اکیلے بیٹھنا چاہ رہے ہیں۔ ہم ادھر ادھر ہو کر اوپر
پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ اوپر جا کر اپنے پتھر پر کھڑے ہو کر میں نے نیچے دیکھا۔ مجھے
ڈر سا لگا۔ یوں لگا جیسے میں نیچے گر جاؤں گا۔ کوئی چیز مجھے نیچے کھینچ رہی ہے یا
کوئی طاقت مجھے آگے دھکیل کر نیچے گرا دے گی۔ بمشکل نیچے اتر کر موقع کی تلاش میں
رہا کہ اس کی توجیح دریافت کروں مگر جو کچھ انہوں نے فرمایا اب وہ پوری طرح تو یاد
نہیں۔ صرف اتنا یاد ہے کہ احساس کے حوالے سے کچھ فرمایا تھا کہ یہ دیکھنے والے کا
اپنا احساس ہے کہ کہیں اس کا وزن اس کو نیچے نہ دھکیل دے۔
ایک دو آدمی سڑک کی دوسری طرف پہاڑی پر گئے اور جب واپس آئے تو کسی گھر سے
مانگی ہوئی لسی کی بھری ہوئی بالٹی اٹھائے ہوئے تھے۔ کھانے کے ساتھ اس لسی نے خوب
لطف دیا۔ کھانے کے بعد چائے کا پروگرام بنا۔ چائے پی کر واپس روانگی ہوئی۔
واپسی میں ایک گاڑی ہم سے آگے آگے جا رہی تھی۔ اس پر ویڈیو فلم بنانے والے ایک
بھائی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہماری گاڑی کی ویڈیو فلم بنا رہے تھے۔ حضور نے ان کو پیغام
دلوایا کہ ارد گرد کے مناظر اور سبزی کو فلم بند کریں۔ اس وقت تک وہ احتراماً گاڑی
کے اندر بیٹھ کر فلم بندی کر رہے تھے۔ حضور کی طرف اشارہ ملنے پر وہ گاڑی کی چھت
پر بیٹھ گئے اور کیمرے کی آنکھ سے اس سفر کو دیکھتے رہے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔