Topics
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو مل کر بے خودی کا کیف تجربے میں آتا ہے۔ ان
سے ملاقات پر آپ کی عجیب حالت ہو جاتی ہے۔ آپ اپنی کیفیات میں لطف و انبساط کا
تاثر نمایاں طور پر محسوس کرتے ہیں۔ تمام تر بے خودی کے باوجود احترام کا دامن بھی
ہاتھ سے نہیں چھٹتا اور آپ خود کو ان کی طرف کھنچتا ہوا بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ
کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ احترام میں فاصلے کی بجائے قربت اور وارفتگی میں عقیدت گھل
جاتی ہے۔ ان میں کچھ ایسی خداداد صفت ہوتی ہے کہ وہ آپ کو خود آپ سے دور ہٹا کر
اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
جب آدمی کی توجہ خود سے ہٹتی ہے تب وہ دوسروں کو دیکھنا اور محسوس کرنا شروع
کر دیتا ہے۔ جب آدمی اپنی ذات کے محدود حصار سے باہر نکل آتا ہے تو اس کو یہ دنیا
ایک مختلف رنگ، ایک بدلے ہوئے ڈھنگ اور ایک نئے زاویے سے نظر آنا شروع ہو جاتی
ہے۔ جب آنکھوں پر چڑھے شیشے کا رنگ تبدیل ہو جائے تو اس تبدیلی کا مسبب مسکرا دیتا
ہے۔ ان کی یہ مسکراہٹ اتنی گہری، برزور اور جاندار ہوتی ہے کہ آپ بے خود ہو جاتے
ہیں اور اس مشفقانہ پناہ کا بھرپور احساس دلانے والی مسکراہٹ کے ملکوتی حسن میں
کھو جاتے ہیں۔ آپ کو اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ آپ کے دھیان میں موجود ہر چیز اس
مسکراہٹ کی لپیٹ میں آ کر معدوم ہو جاتی ہے۔ دھیمے اور کومل سروں کی یہ مسکراہٹ
اتنا ہلکا پھلکا کر دیتی ہے کہ آپ کو اپنا وجود فضا میں تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
غم دھواں ہو کر اڑ جاتے ہیں۔ آپ کو اپنی کوئی پریشانی، کوئی فکر، کوئی تھکن، کوئی
الجھن یاد نہیں رہتی۔ آپ کے ہر رنج ہر دکھ کو وہ اپنے بہاؤ کے زور سے آپ سے دور
کر دیتی ہے۔ آپ اس مسکراہٹ میں کھو جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ مسکراہٹ
ہونٹوں سے اتر کر آپ کے ارد گرد پھیلتی چلی جا رہی ہے اور اس نے ہر طرف سے آپ کو
اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ آپ اس مسکراہٹ کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ وہ مسکراہٹ
آپ کے اندر اتر جاتی ہے۔ آپ خود بھی مسکرا دیتے ہیں اور اس پھیلتی بڑھتی مسکراہٹ
کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ مسکراہٹ کسی بھی طور ان وقتی اور لمحاتی مسکراہٹوں جیسی نہیں ہوتی جن سے ہم
اکثر و بیشتر دو چار ہوتے ہیں۔ یہ عارضی نہیں ہوتی۔ مستقل اور پائیدار ہوتی ہے۔
منظر سے ہٹنے کے بعد بھی یہ آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ آپ اس کو ساتھ رکھنے پر
آمادہ ہوں تو یہ آپ کو گدگداتی اور مسرور کرتی ہے۔ آپ یہ جان لیتے ہیں کہ اس
مسکراہٹ کا تعلق خوشیوں کے اس گروہ سے ہے جو حقیقی ہیں۔ یہ مسکراہٹ ان مسرتوں کی
آئینہ دار ہوتی ہے جن کا تعلق سرور سے ہوتا ہے۔ اس سرور سے جو آپ کی رگ رگ میں
پھیل کر آپ کو بلکورے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ مستی کا ایک پیٹر آپ کے من کے
آنگن میں اگتا، بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔
ایک بار میں بھی ایک ایسی ہی مسکراہٹ سے دو چار ہوا تھا۔ آج سالوں بعد بھی ان
لمحات کی سرور انگیزی اتنی تازہ اور نئی سی لگتی ہے گویا کل ہی کی بات ہو۔ ان کیف
آور لمحوں کی یاد آتی ہے تو آج بھی میرا تن بلکورے لینا اور من ڈولنا شروع کر دیتا
ہے۔ اس وقت جب میں نے باانداز ناز آٹو گراف لیتے ہوئے اپنے نام میں ’’عظیمی‘‘ کے
اضافے کی درخواست کی تو ایسی ہزاروں درخواستوں پہ ’’اجازت ہے‘‘ لکھنے والے نے نظریں
اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرا دیا۔ اس مسکراہٹ نے کشش ثقل کو ختم کر دیا۔ میں نے ایک
بے وزنی کی کیفیت میں ایک نئے عالم، ایک نئے جہاں اور ایک نئی دنیا کو اپنے سامنے
طلوع ہوتے دیکھا۔ میری سابقہ زندگی زلزلے کی زد میں تھی اس میں دراڑیں پڑ رہی تھیں۔
وہ مسمار ہو رہی تھی۔ ہر شئے فنا سے دوچار تھی۔ جب میاں مشتاق احمد عظیمی اور نیاز
احمد عظیمی نے ’’مبارک ہو‘‘ کہا تو مجھے لگا کہ اک راہ گم کردہ مسافر صحرا کے سفر
میں اپنی منزل مراد تک ایک ہی ہلے میں پہنچ گیا ہے۔ اب میرے سامنے ایک واضح منزل
تھی……میری منزل مقصود……اور میں اس منزل کی طرف اپنے مراد کی انگلی تھامے نکلتا ہی
چلا گیا۔
اس نئی زندگی میں ایک بار ہا سفر در سفر کی کیفیت سے گزرا۔ کبھی اس سفر کا
آغاز تنہائی میں ہوا اور میرا مراد میرے نفس کے اونٹ کو ایک ساربان کی طرح عقل و
نادانی کے سرابوں سے بچاتا، صحراؤں کے بے نشان راستوں پہ چلاتا، مجھے انفس و آفاق
کی سیر کراتا اور میں ’’ٹک ٹک دیدم……دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنا یہ سب کچھ دیکھا
کرتا۔
ایک بار دیکھا کہ میں ایک چھوٹا سا بچہ ہوں۔ یہ بچہ اپنے باپ کے پیچھے پیچھے
چلا جا رہا ہے۔ باپ کی نظریں افق کے پار جمی ہوئی ہیں اور بچے کی نگاہیں باپ کے
نقوش پاکی تلاش میں باپ کی ایڑیوں پر۔ وہ اپنے ننھے قدم باپ کے نقوش پا پر رکھنے کی
کوشش میں کبھی کامیاب ہوتا اور کبھی ناکامیاب……باپ بظاہر اپنے پیچھے آتے بچے کے
اس شغل سے بے خبر قدم بڑھائے چلا جا رہا تھا لیکن بباطن خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ
بچے کی یہ حرکت ایک نہ ایک دن اس کو اس کے نقش قدم پر چلنا سکھا ہی دے گی۔ بچے جب
اپنے والد کے ، چیلے اپنے گرو کے اور مرید اپنے مراد کے قدموں کے نشانات کا سراغ
رکھتے ہیں تو سعادت مند کہلاتے ہیں۔ ان کی سعادت مندی انہیں منزل مراد سے قریب اور
قریب کرتی چلی جاتی ہے۔ منزل کے قرب کا احساس راہبر کو سرشار کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔