Topics
لاہور سے نکلتے ہوئے جب ہم داتا صاحبؒ کے مزار کے قریب سے گزر رہے تھے تو میرے
ذہن میں مرشد کریم کے کہے ہوئے الفاظ تازہ ہو گئے۔ انہوں نے ایک بار حضرت داتا
صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’ایک زندگی یہ بھی تو ہے۔ یہاں کب سے لنگر
بٹ رہا ہے؟‘‘ آپ بادشاہوں کے مقبرے دیکھیں اور اس کا موازنہ فقیروں کے مزاروں سے
کریں۔ ایک تمام تر جاہ و حشمت کے باوجود ویران اور بے رونق۔ دوسرے کسی جاہ و حشمت
کے سہارے کے بغیر بھی آباد اور پر رونق۔ ایک طرف درس عبرت اور دوسری طرف تعلیم
حکمت۔ ایک عمارت فنا کی دوسری زندگی کی دھڑکن کی۔
ایک بار فرمایا تھا ’’کبھی کسی بادشاہ کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ لنگر چلائے یہ
فقیروں کا ہی اعجاز ہے۔ وہ زندگی میں تو مخلوق خدا کی خدمت میں کوشاں رہتے ہی ہیں،
ان کے وصال کے بعد یہ سلسلہ رکنے کے بجائے اور بھی دراز ہو جاتا ہے۔‘‘
اب حضور داتا صاحبؒ کا مزار ایک کمپلیکس بن رہا ہے۔ مزار کا احاطہ وقت کے
گزرنے کے ساتھ ساتھ پھیل کر اب باہر کی سڑک تک آن پہنچا ہے۔ اس میں مسجد کے علاوہ
ایک ہسپتال بنے گا۔ فقیر کے در سے کس کس طرح فیض بٹتا ہے، یہ بھی اسی فیضاں کی ایک
صورت ہے۔
ایک بار ہم کراچی سے آئے ہوئے بھائیوں اور اپنے مراد کے ہمراہ داتا صاحب آئے
تھے۔ کسی نے مزار پر حاضری کے آداب کی بابت پوچھا۔ آپ نے فرمایا۔ ’’جائیں جا کر
سلام کریں جیسے کسی بڑے سے ملتے ہیں ادب سے بیٹھیں۔ توجہ اپنے مرشد کی طرف رکھیں۔‘‘
مزار پہ چہل پہل میں بھی سکون اور خوشی کا تاثر نمایاں تھا۔ کچھ دیر بیٹھے، پھر
باہر آئے تو مرشد کریم نے ایک دیگ والے سے بات کی۔ غفار بھائی نے آگے بڑھ کر دیگ
لی۔ اس پہ چمچ مارا یکدم لوگ قطار میں کھڑے ہو گئے۔ رومال، لفافے، پلاسٹک کے تھیلے،
ایک آدھ جھولی پھیلی اور دیگ ختم۔ پھر سب نے باری باری ایک ایک دیگ خریدی اور
غفار بھائی بانٹتے رہے۔ کھڑے کھڑے پندرہ سولہ دیگیں بٹ گئیں۔ سہ پہر کا وقت تھا۔
دوپہر یا رات کے کھانے کا ہوتا تو ہجوم کی جانے کیا کیفیت ہوتی۔ آپ نے لنگر کے اس
انداز پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
کراچی میں عرس کے موقع پر لنگر میں باقاعدہ کھانا چن دیا جاتا ہے اور زائرین
دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ پھر ہزاروں برتنوں کی صفائی، دیکھ بھال اور
انتظامات۔ پھر اگر کوئی رہ گیا تو ساری محنت اکارت۔ فرمایا۔’’یہ خوب ہے نہ کھلانے
کا انتظام نہ برتن سنبھالنے کا جھنجٹ، لوگ آئے، لنگر میں حصہ بھی لیا۔ لنگر کھایا
بھی اور بانٹا بھی۔‘‘
اب ہم راوی کے پل سے گزر رہے تھے۔ دریا کو پایاب دیکھا تو میرا دل دھڑکا۔ اپریل
کی اختتامی تاریخیں اور دریا اتنا پایاب۔
’’بارشیں نہ ہونے کا اثر ہے۔‘‘ حاجی ادریس صاحب نے تبصرہ کیا۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔