Topics
بار روم کی بلڈنگ سے باہر نکلتے ہی مجھے یک دم وہاں وکلاء اور سائل نظر آنا
شروع ہو گئے۔ خطاب اور چائے کے دوران میری توجہ نہ جانے کیوں ان کا احاطہ نہیں کر
رہی تھی۔ میں نے پاس سے گزرتے انسانوں کے ہجوم میں ڈھلتی دوپہر کی تھکن اور پژمردگی
محسوس کی اور سوچا کہ اگر یہ لوگ جان لیں کہ آج ان کے درمیان سے گزرنے والا مہمان
ان کے لئے کیا کیا تحفے لے کر آیا تھا وہ ان کو اس آسانی اور سہولت سے یہاں سے
گزر جانے دیتے اور اگر ان کو اس کا ادراک ہو جاتا تو بھلا اس وقت کیسا عالم ہوتا۔
ایک چھینا جھپٹی ایک ہا ہا کارمچی ہوتی۔
ایک بوری سکون مجھے چاہئے۔
مسرتوں کا ایک بنڈل مجھے دینا……
یہ ذہنی سکون کا توڑا مجھے درکار ہے۔
یہ سکون قلبی کا بورا مجھے دے دو میں مر رہا ہوں۔
نجات کرب کا ایک ٹین دینا بھئی۔
دافع شکوک کا ایک کنستر میرے لئے کافی نہیں مجھے تو دو چاہئیں۔
مجھے عرق دائمی کیف چاہئے۔
چند پیٹیاں شادمانی اور دینا۔ وسوسوں کا مرہم۔ اندیشوں اور پریشانیوں کے تریاق
اور خوشیوں کے امرت دھارے کی شیشیاں کم پڑ رہی ہوتیں۔
لیکن اس وقت یہاں ایسا کوئی سین نہ تھا۔ ہمارے ارد گرد سب اپنی اپنی پریشانیوں
اور جمع تفریقوں میں اتنے منہمک تھے کہ ان کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی فرصت نہ
تھی۔ نظر اٹھتی بھی تھی تو بصارتوں پر مہریں لگے پردے ہونے کے سبب جو نظر آتا
تھا، وہ وہ نہ تھا جو دراصل ہوتا ہے اور جو ہوتا ہو اور وہ نظر نہ آئے، دکھائی ہی
نہ دے تو بندہ جاہل اور کم علم ہی نہیں ظالم بھی کہلاتا ہے۔
جنہیں کچھ دھندلا دھندلا سا نظر آ رہا تھا وہ اس تگ و دو میں تھے کہ اس سودے
کو حاصل کرنے کا طریقہ پوچھیں۔ کچھ ہچکچا کر پیچھے رہ گئے کچھ نے ہمت کر کے پوچھ ہی
لیا۔ جس نے پوچھا اسے لاہور مراقبہ ہال سے رابطہ کرنے کا کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ
کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔
مرشد کریم نے اکرام شہابی صاحب کے گھر جاتے ہوئے راستے میں بتایا کہ کراچی میں
عظیمیہ کلب بنایا گیا ہے اور اس کی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد یہ بتایا کہ اس طرح
بھائیوں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرتی
اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع مل سکیں۔ انہیں معاشرہ میں رہنے کا سلیفہ
بھی آنا چاہئے۔ ہوٹلوں میں کلب کے حوالے سے میٹنگ وغیرہ کریں۔ ایک تو یہ سستا
پڑتا ہے دوسرے ان کے ذہن کھلیں گے۔ ان کو دنیا داری کے آداب بھی سیکھنے چاہئیں۔
پھر فرمایا کہ ان کے ذہنوں سے امارت کا خوف تبھی نکلے گا جب یہ اسے قریب سے دیکھ لیں
گے۔ اسے برتنا سیکھیں گے۔ پھر کئی واقعات سنائے کہ کس طرح ہم لوگ بڑی عمارات میں
جانے سے ہچکچا جاتے ہیں۔ ان کے رعب میں آ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔