Topics
مرشد کریم میرے الجھے خیالات کو کس طرح سنوارنے کا اہتمام کرتے ہیں، یہ میرے
نصیب ہیں۔ مجھے کئی بار یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں جتائے بغیر کسی اور کو بات
سناتے ہوئے کوئی اور تذکرہ کرتے کرتے ہمارے اندر کے جالے ہٹا رہے ہوں۔ غلط نظریات
کے جالے، غلط تصورات کے جالے، غلط سوچوں کے جالے، یہ جالے ہی تو بصارت اور بصیرت
دونوں کو دھندلا کر رکھ دیتے ہیں۔ بصیرتوں کو جلا دینے کے لئے ان جالوں سے نجات
پانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا بصیرتوں کی نشوونما کے لئے ان کی آبیاری کے لئے انہیں
غیر جانبدارانہ طرز فکر سے سیراب کرنا لازم آتا ہے۔ علوم و آگہی کی فراہمی میں
کبھی کبھی یہ جالے سدراہ ہو جاتے ہیں اور اچھی بھلی بات سمجھ میں آ کر بھی سمجھ میں
نہیں آتی۔ شیطان کو پر مارنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
آج صبح ہی مراقبہ ہال میں یہ منظر گزرتے دیکھا تھا۔ ناشتے سے پیشتر کچھ طلبا
آئے وہ ذہنوں میں مختلف سوالات اور الجھنیں لے کر آئے تھے اور داد رسی چاہتے
تھے۔ کئی ایک سوالات کے بعد ان میں سے ایک صاحب نے سن 2006ء کی پیشن گوئی کے حوالے
سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہو سکتا ہے کہ اس ہونے والی بات کو روکا جا سکے
اور جب جواب میں یہ سنا کہ جب ایک بات اللہ تعالیٰ کے ہاں طے ہو جائے تو پھر کچھ
نہیں ہو سکتا تو پھر ہمیں کچھ کرنے کی کیا پڑی ہے۔ خواجہ صاحب کی بصیرت سے ان کے
ذہنوں کے جالے اور کجی کہاں چھپی رہ سکتی تھی۔ ان کا علاج کرنا ضروری تھا۔ ایک بات
ان کے ذہنوں میں نہایت غلط انداز میں بیٹھ جانے کو تھی۔ اس سے ان کی پریشانیوں میں
اضافہ ہو جاتا اور یہی بات فقیر کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے۔ میرے مراد نے ایک ہی
جملے میں سب صاف کر کے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا۔
’’دراصل شیطان نے ان کے کان پر مار دیا ہے تا کہ ان کا ذہن جمود کا شکار ہو
جائے۔‘‘ اور پھر بڑی شفقت سے سمجھایا۔ ’’مرنا تو یوں بھی سب نے ہے۔ اکٹھے مریں یا
باری باری۔ مر تو سب ہی رہے ہیں لیکن آپ موت کے خوف سے حرکت سے باز آ جائیں گے
تو آپ تو وقت سے پہلے ہی مر جائیں گے۔ موت میں بھی تو حرکت ہی بند ہوتی ہے۔ انسان
کی اس دنیا کی حرکت۔ انسان فنا تو نہیں ہو جاتا مرنے سے۔ آپ اپنا کام کریں۔ ابھی
بہت وقت پڑا ہے۔ 2006ء آنے میں۔‘‘
میرے ذہن میں اسی وقت
اس حدیث مبارک کے الفاظ تازہ ہو گئے۔
’’ اگر کسی کے ہاتھ میں کھجور کی ایک قلم ہو اور قیامت آ جائے تو اسے چاہئے کہ
وہ اسے زمین میں لگا دے۔‘‘
شہابی صاحب کے گھر کچھ دیر قیام کے بعد ہم میاں صاحب کے گھر گئے، وہاں کھانا
کھا رہے تھے کہ حاجی ادریس صاحب مرشد کریم کاکڑہ ٹاؤن لے جانے آ گئے۔ کھانے کے
بعد میاں صاحب سے رخصت ہو کر ہم عازم کشمیر ہو رہے تھے تو میں نے بچیوں کو عقیدت
کے آنسوؤں کی لڑیاں پروتے دیکھ کر سوچا کہ اتنے عظیم مہمان کے گھر سے رخصت ہونے
پر بعد میں جس طرح گھر کھانے کو دوڑے گا، کیا یہ اس کے خوف سے نکلنے والے آنسو ہیں؟
میرے جی میں آیا نہیں یہ آنسو تشکر کے ہیں، جو عطا دیکھ کر اپنی کم مائیگی پر کئی
بار خود میری آنکھیں اور منہ دھو چکے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔