Topics

کن فیکون

سوال: میری ایک عزیز خاتون کی شادی کو تقریباً سات سال کا عرصہ گزرگیا ہے۔ ان کی تین اولادیں ہوئیں جو پیدائش کے بعد ہی مر گئیں۔ چوتھے نمبر پر انہوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ یہ لڑکا اتنا کمزور تھا جیسے کوئی ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔ بڑی مشکلات کے بعد زندہ بچا۔ اس کے بعد وہ ایک اور بیٹے کی ماں بنیں۔ یہ لڑکا بھی پیدائشی طور پر بہت کمزور تھا۔ پیدا ہونے کے 18روز کے بعد لڑکے کا سانس رک رک کر آنے لگا۔ یہ حالت دیکھ کر فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ علاج کے بعد گھر واپس لانے کی اجازت دے دی گئی۔ تین چار روز کے بعد لڑکے کو مسلسل دورے پڑنے لگے ان دوروں کی شدت اتنی تھی کہ ایک گھنٹے میں تقریباً بیس بائیس مرتبہ پڑتے تھے، دوبارہ ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ جہاں اسے 24گھنٹے آکسیجن دی گئی۔ اس کے بعد بھی ڈیڑھ مہینے تک اسے نگرانی میں رکھا گیا۔ علاج اور نگہداشت سے تقریباً 2ماہ تک دوروں کی شدت میں کمی نہیں رہی لیکن اس کے بعد دوروں کے ساتھ جھٹکے بھی لگنے لگے۔ 

دن میں دو تین بار پورے جسم کو شدید جھٹکا لگتا تھا۔ آہستہ آہستہ جھٹکے لگنا ختم ہو گئے۔ لیکن پورا جسم معطل اور بے حس ہو جاتا تھا۔ جب جسم کی حرکت بحال ہوئی تو غصہ اور چڑچڑا پن اس قدر سوار رہتا کہ وہ انگلیوں کو دانتوں سے لہولہان کر دیتا تھا۔ اب اس کی عمر پانچ سال کے قریب ہے لیکن نہ تو چل سکتا ہے اور نہ ہی بولنے کی صلاحیت اس کے اندر ہے۔ دوسروں کی باتوں کو سن کر غوں کی آواز منہ سے نکالتا ہے اسے جو بھی دیکھتا ہے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ اس کی ماں بیٹے کے غم میں گھلتی جا رہی ہے۔

جواب: عود صلیب(ایک جڑہوتی ہے) جو عمدہ قسم جو گھن کھائی ہوئی نہ ہو، لے کر تختی بنا لیں۔ اس تختی کے اوپر پکی چمکدار سیاہ روشنائی سے سورۃ یٰسین کی آخری آیت سے پہلی آیت۔ جس میں لفظ کن فیکون ہے۔ اس تختی پر لکھ دیں اور یہ تختی بچے کے گلے میں ڈوری کے ساتھ اس طرح ڈال دیں کہ باہر سے نظر نہ آئے۔ تین ماہ تک گلے میں ڈالے رکھیں۔ نہلاتے وقت بھی گلے سے الگ نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ جبکہ رات کو گہری نیند سو جائے تو سرہانے کھڑے ہو کر ایک بار سورۂ مریم کی پہلی آیت اس طرح پڑھیں کہ ہر لفظ کا وقفہ برابر رہے۔ اس عمل کو بھی تین ماہ تک برقرار رکھا جائے۔ جس ڈوری میں تختی لٹکائی جائے اس کا رنگ گہرا نیلا ہونا چاہئے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔