Topics
سوال: کالم ’’روحانی ڈاک‘‘ میں اکثر کائناتی پروگرام کے بارے میں پڑھا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس کائناتی پروگرام کی اسلامی اور سائنسی نقطہ نظر سے کیا تشریح ہو گی۔ کتاب المبین، لوح محفوظ، مستقل اور غیر مستقل آباد نظام وغیرہ سے کیا مراد ہے۔ اس کے علاوہ انسان اپنی روحانی صلاحیتوں کو کس طرح بیدار کر کے سیاروں پر جا کر آباد مخلوق کو دیکھ سکتا ہے۔ یقیناً یہ سوالات قارئین ’’جنگ‘‘ کے لئے علم اور دلچسپی کا باعث ہونگے۔ اس لئے امید کرتا ہوں کہ میرے ا س خط کا جواب جلد از جلد قریبی ایڈیشن میں شائع کرینگے۔
جواب: مشاہداتی طرزوں میں ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی نظام ہو اس کا چلانے کے قاعدے، ضابطے اور ایک تنظیمی نوعیت ہوتی ہے خود قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ ساری کائنات معین تعدادوں سے بنائی ہے اور کوئی ایک دوسرے کے ساتھ سرکشی نہیں کر سکتا۔ سورج کے لئے یہ بات مقرر کر دی گئی ہے کہ وہ مشرق سے طلوع ہو اور مغرب میں غروب ہو، آسمان کی رفعت تو دیکھئے کہ اتنا اونچا آسمان اور بغیر ستون کے قائم ہے۔ زمین کو اتنا نرم نہیں بنا دیا گیا کہ اس میں پیر دھنس جائیں اور اتنا سخت نہیں کہ مخلوق چل پھر نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں دو نظام قائم کئے ہیں۔ ایک نظام رشد و ہدایت کا نظام ہے اور دوسرا نظام کائناتی ایڈمنسٹریشن کا نظام ہے۔ یہ نظام وہ لوگ چلاتے ہیں جو اللہ کے نائب اور خلیفہ ہیں۔ اس نظام کے ہیڈ باعث تخلیق کائنات محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ قرآن میں ان دو نظاموں کا تذکرہ بڑی وضاحت کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بندوں میں سے ایک بندہ(حضرت خضرؑ ) کے قصے میں بیان ہوا ہے۔ مستقل اور غیر مستقل آباد نظام کی تفصیلات اتنی زیادہ ہیں کہ روحانی ڈاک کا پورا کالم بھی اس کے لئے کافی نہیں ہے۔ روحانی صلاحیت کو بیدار کرنے کے لئے سب سے زیادہ موثر طریقہ صحیح نماز قائم کرنے میں ہے۔ اگر ہم نماز صحیح طرح سے پڑھنے لگیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے کائنات کے چھپے ہوئے گوشے آ جاتے ہیں یہی وہ کیفیت ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے الصلوٰۃ معراج المومنین کہا ہے۔ نماز کے ارکان کے اوپر تفکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ نماز مجموعی طور سے کنسٹرکشن حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ نماز میں مرکزیت قائم ہو جاتی ہے۔ اس لئے نماز بجائے خود ’’مراقبہ‘‘ ہے۔ روحانی لوگ صلوٰۃ کا ترجمہ اللہ کے ساتھ ذہنی مرکزیت کے حصول (مراقبہ) کو بھی مراقبہ کہتے ہیں۔ مراقبہ کا مطلب ہی ذہنی مرکزیت قائم کرنا ہے۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس کو ہمارے اسلاف ، اولیاء اللہ اور علمائے کرام نے بھی کیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔