Topics

نماز اور معراج

سوال: جب ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعہ معراج پر غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ واقعہ معراج میں حضور علیہ السلام غیب کی دنیا میں داخل ہو گئے تھے۔ اور واقعہ معراج یعنی غیب کی دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی امت کے لئے نماز کا حکم عطا فرمایا۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ جب ہم حضور علیہ السلام کے فرمان پر غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نماز مومن کو غیب میں داخل کر دیتی ہے۔ غرض یہ کہ کیا عام مسلمان بھی نماز کے ذریعے معراج کا شرف حاصل کر سکتا ہے؟ نیز یہ کہ عام مومن کی معراج اور حضور علیہ السلام کی معراج میں کیا فرق ہے؟

جواب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔’’نماز مومنوں کی معرا ج ہے۔‘‘ ہم جب معراج کے معنی اور مفہوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ معراج دراصل غیبی دنیا کے انکشاف کا متبادل نام ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے حالات جب ہم پڑھتے ہیں تو ان تمام حالات سے ہمیں غیب میں بسنے والی دنیا کا شعوری طور پر عرفان حاصل ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام قدروں سے ہٹ کر زمان و مکان کو نظر انداز فرماتے ہوئے جسمانی طور پر مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ وہاں موجود انبیاء نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت میں نماز ادا کی پھر آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ پہلا آسمان، دوسرا آسمان ، تیسراآسمان ، چھوتھا آسمان ،چھٹا آسمان،ساتواں آسمان اور پھر عرش پر قیام فرمایا۔ آسمانوں میں مقیم حضرات سے ملاقات کی۔ جنت و دوزخ کے حالات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آئے۔ فرشتوں سے گفتگو ہوئی اور پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج میں ایسا مقام عطا ہوا کہ جہاں اللہ تعالیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ نے جو دل چاہا اپنے بندے سے راز و نیاز کی باتیں کیں اور ساتھ ہی فرمایا کہ جو کچھ دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔ معراج کے اس لطیف اور پر انور واقعہ سے یہ بات سند کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے کہ معراج کے معنی اور مفہوم غیب کی دنیا سے روشناسی ہے۔ یہ معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج ہے۔ 

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لئے نماز کو معراج فرماتے ہیں۔ یعنی جب کوئی مومن نماز میں قیام کرتا ہے تو اس کے دماغ میں وہ دریچہ کھل جاتا ہے جس میں سے وہ غریب کی دنیا میں داخل ہو کر وہاں کے حالات سے واقف ہو جاتا ہے۔ فرشتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ نور کے ہالے میں بند ہو کر اور ٹائم اسپیس سے آزاد ہونے کے بعد اس کی پرواز آسمانوں کی رفعت کو چھو لیتی ہے اور پھر وہ عرش معلیٰ پر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے اور وہ مومن جو نماز میں معراج حاصل کر لیتا ہے اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی صفات کا نور بارش بن کر برستا ہے۔

یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی امتی کی معراج روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات تک ہوتی ہے۔ یعنی کوئی امتی نماز کے ذریعے فرشتوں سے ہم کلام ہو سکتا ہے، جنت کی سیر کرسکتا ہے اور انتہا یہ کہ ترقی کر کے اللہ تعالیٰ کا عارف بن سکتا ہے۔ ایسے مومن کو شرف حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ عرش و کرسی کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کا دیدار کر لیتی ہیں کان اللہ تعالیٰ کی آواز سنتے ہیں۔ اور دل اللہ تعالیٰ کی قربت سے آشنا ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام کی معراج جسمانی و روحانی ہے اور یہ ایسا اعلیٰ مقام ہے جو صرف حضور علیہ السلام کے لئے مخصوص ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ بیت المعمور سے آگے حجاب عظمت ، حجاب کبریا اور حجاب محمود کے مقامات ہیں۔ حجاب محمود کے بعد مقام محمود ہے۔ اور یہ وہی مقام اعلیٰ ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم معراج میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے ارشاد فرمایا۔

ہم نے اپنے بندے سے جو چاہا باتیں کیں، دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔ (سورہ نجم)

نماز کی حقیقت سے آشنا ہونے کے لئے اپنی روح کا عرفان حاصل کرنا ضروری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ 

حضور قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی یعنی جب تک نماز میں حضور قلب نہ ہو اور آدمی تمام وسوسوں اور منتشر خیالی سے آزاد نہ ہو۔ فی الحقیقت اس کی نماز، نماز نہیں ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس کو جسمانی حرکت تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس عمل سے روحانی قدریں شامل نہیں ہوتیں۔ جب کوئی بندہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ نماز قائم کرتا ہے تو اس کے اوپر سے اس دماغ کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے جس دماغ کو ہم نافرمانی کا دماغ کہتے ہیں۔ جب کسی بندے کے اوپر سے نافرمانی کے دماغ کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر جنت کے دماغ کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جنت کا دماغ ٹائم اسپیس کی حد بندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ جب ٹائم اسپیس سے آزاد دماغ کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمارے اوپر انوار کا نزول ہونے لگتا ہے اور حالت نماز میں مفروضہ حواس (FICTION) سے ہمارا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے اور بندہ اللہ کی تجلیات اور انوار میں جذب ہو کر کھو جاتا ہے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔