Topics

شعور‘ لاشعور اور تحت الشعور

سوال: ٹیلی پیتھی کی کتاب میں لکھا ہے کہ انسانی زندگی تبادلہ خیال پر قائم ہے۔ کوئی بھی عمل ہو، کوئی بھی حرکت ہو۔ اگر پہلے سے اس عمل اور اس حرکت سے متعلق خیال نہ آئے تو آدمی نہ حرکت کر سکتا اور نہ عمل کر سکتا ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ الفاظ جو ہمارے منہ سے نکلتے ہیں۔ ان کی حیثیت ثانوی ہے اور خیال کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ آپ سے نہایت عاجزانہ درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو ذرا وضاحت سے سمجھا دیں۔

جواب: ایک انسان جس کو ہم فرد کا نام دیتے ہیں تین دائروں سے مرکب ہے۔ شعور‘ لاشعور اور تحت الشعور۔ لاشعور سے مراد نوع انسان کا شعور ہے اور تحت الشعور سے مراد کائنات کا شعور ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کے اندر فرد کا شعور، نوع انسان کا شعور اور کائنات کا شعور ہمہ وقت متحرک رہتا ہے۔ جس طرح کوئی ایک فرد اپنی ذات سے واقفیت رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ نوع انسانی سے بھی واقف ہے۔ نوع انسانی کا کوئی بھی فرد کہیں بھی ہو کسی بھی مخلوق میں ہو فرد اس کو انسان سمجھتا ہے اور انسان کو پہچانتا ہے۔ فرد جب کائنات کے شعور میں داخل ہوتا ہے تو وہ چاند، سورج، ستاروں کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح وہ خود کو دیکھتا ہے۔

جب ایک ماں ہزاروں آدمیوں میں اپنے بچے کو پہچان لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماں کے ذہن میں بچے سے متعلق جو اطلاع (انفارمیشن) ہے اس انفارمیشن نے ماں کی رہنمائی کی اور ماں نے بچے کو پہچان لیا۔ جب کوئی فرد ستاروں اور کہکشانی نظاموں کو دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ستاروں اور کہکشانی نظاموں کے متعلق پہلے سے اطلاع موجود ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہوئی کہ ایک فرد کے اندر نوع انسانی اور کائنات میں موجود ہر مخلوق کی اطلاعات موجود ہیں اور ان اطلاعات کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر فرد کے ذہن میں جنات اور فرشتوں سے متعلق اطلاعات کا رد و بدل نہ ہو تو فرشتے اور جنات کا تذکرہ زیر بحث نہیں آئے گا۔ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ہر مخلوق کے خیالات کی لہریں فرد کو منتقل ہو رہی ہیں۔ خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ ہے۔

زندگی کو قائم رکھنے والے جذبات و احساسات، کیفیات اور نتائج پر تفکر کیا جائے تو یہ بات ہر فرد جانتا ہے کہ جب تک بھوک نہ لگے یعنی یہ اطلاع نہ ملے کہ جسم کو غذا اور انرجی کی ضرورت ہے فرد کھانا نہیں کھاتا۔ فرد کے ذہن میں اگر پانی پینے کا خیال (انفارمیشن) نہ آئے تو فرد پانی نہیں پی سکتا۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے روشن ہے کہ جس حد تک ہم کسی خیال کو قبول یا رد کرتے ہیں اسی مناسبت سے ہم اس فرد سے قریب یا دور ہو جاتے ہیں اور جب خیالات کے رد و بدل کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ ان ہی خیالات کو ہم اپنی زبان میں تواہم، تخیل، تصور اور تفکر کا نام دیتے ہیں۔

انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ ایسا انسان جو الفاظ کی لہروں کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دوسرے حیوان جن کو حیوان غیر ناطق کہا جاتا ہے، اپنے خیالات الفاظ کا سہارا لئے بغیر دوسروں کو منتقل کرتے ہیں اور دوسرے حیوان ان اطلاعات کو وصول کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ دوبکریاں یا دو طوطے آپس میں باتیں نہیں کرتے یا انہیں ایک دوسرے کے جذبات کا احساس نہیں ہوتا۔ انہیں ایک دوسرے کے جذبات کا پوری طرح احساس ہوتا ہے اور وہ الفاظ کا سہارا لئے بغیر جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور فریق ثانی بھی ان جذبات و احساسات کو سمجھتا ہے اور قبول کرتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے چیونٹی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی گفتگو کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔