Topics

آدمی کے اندر درخت-جسم کو جھٹکے

سوال: کئی سالوں سے حال یہ ہے کہ کسی کو نظر بھر کر دیکھوں یا کسی کی طرف ذہنی مرکزیت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں تو جسم کو ایک جھٹکا لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ پورے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ہے۔ اس کیفیت کی وجہ سے کسی سے بات کرتے ہوئے گھبراتا ہوں اور لوگوں سے نظریں چراتا ہوں۔ ذہنی حالت یہ ہے کہ ذرا ذرا سی غیر معمولی بات پر آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ آدھ گھنٹہ سے زیادہ پڑھ نہیں سکتا۔ دماغ سن ہو جاتا ہے اور دل پر دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ کالم روحانی ڈاک میں پیچیدہ اور لا علاج امراض اور مسائل کا حل دیکھ کر خط لکھ رہا ہوں۔ تجزیہ و علاج سے نوازیں۔

جواب: روحانیت کی رو سے نظر کا قانون یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس چیز یا جاندار کی صفات ہمارے اندر دور کر جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم آگ کو دیکھتے ہیں تو آگ کی خصوصیات ہمارے اندر سے دورہ کرتی ہیں۔ ہم آگ کی گرمی کا احساس اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک سرسبز و شاداب درخت کو دیکھ کر فرحت و شگفتگی کی لہر ہمارے اندر دوڑ جاتی ہے۔ حالانکہ ہم درخت کو نہیں چھوتے۔ یہ صلاحیتیں اور صفات دراصل روشنیاں ہیں اور یہ روشنیاں ہی ہمارے اندر سے دورہ کرتی ہیں۔

ہمارے جسم کے اوپر روشنیوں کا ایک جال ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے۔ یہی روشنیاں ہماری زندگی ہیں۔ انہی روشنیوں سے ہمارے حواس ٹھوس جسم کی حیثیت اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے جسم پر ان روشنیوں کے کئی پرت ہوتے ہیں ہر پرت کی ایک مخصوص وولٹیج ہوتی ہے۔ جب تک یہ مخصوص وولٹیج برقرار رہتی ہے آدمی کے حواس برقرار رہتے ہیں لیکن جب اس میں کمی بیشی ہوتی ہے تو حواس میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ برقی نظام میں کمزوری کے بہت سے مظاہرے ممکن ہیں جن میں سے ایک وہ بھی ہے جو آپ محسوس کرتے ہیں۔ قانون کے مطابق جب آپ کسی شخص کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کے اندر گردش کرنے والی روشنیاں آپ کے پرت کے اندر دور کر جاتی ہیں کیونکہ آپ کے پرت میں روشنیاں معمول کے مطابق کام نہیں کر رہی ہیں۔ اس لئے آپ کے حواس کو جھٹکا لگتا ہے۔ پرت میں روشنیوں کا توازن زیادہ خراب نہ ہونے کی وجہ سے کرنٹ دوڑتا ہوا اس وقت محسوس ہوتا ہے جب آپ زیادہ دیر تک دماغ کو کسی چیز کی طرف متوجہ رکھتے ہیں۔ حواس میں معمول کے مطابق طاقت نہ ہونے کی وجہ سے آپ ایسی باتیں برداشت نہیں کر پاتے جو دماغ پر ذرا سا بھی بار بنتی ہیں۔ روشنیوں کے نظامکو معمول پر لانے کے لئے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یا حی قبل کل شی یا حی بعد کل شئی۔ ایک کاغذ پر لکھ کر شہد میں ڈال دیں اور یہ شہد دن میں کم از کم تین بار استعمال کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑے کاغذ پر موٹے قلم سے بہت خوشخط اللہ لکھیں اس کاغذ کو کسی گتے پر چپکا دیں۔ 

رات کو سونے سے پہلے اس گتے کو ایسی جگہ رکھیں جہاں کوئی اور شخص نہ ہو۔ گہری نگاہ سے اسم ’’اللہ‘‘ پر نظر جمائیں اور آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ اللہ کا نور بارش کی طرح آپ کے اوپر نازل ہو رہا ہے۔ تقریباً دس منٹ بعد آنکھیں کھول دیں اور بات کئے بغیر سو جائیں۔ 41دن تک یہ عمل کریں لیکن شہد کا ستعمال دو ماہ تک جاری رکھیں۔

Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔