Topics

طلاق

سوال: معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو نام سے مخاطب کر رہی ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آج کے اس بے اعتبار دور میں کس کو کیا سمجھا جائے۔

میں علم نجوم کو جھٹلاتی تو نہیں ہوں مگر اس سے کہیں زیادہ اللہ کے کلام پر بھروسہ کرتی ہوں۔ اس لئے میرے مسئلے کا حل زائچے سے نہیں کسی وظیفے سے بتایئے۔ جس سے میری شادی ہوئی ان کو ہم پہلے سے جانتے تھے۔ رشتہ بھی سب کی رضامندی سے ہوا مگر شادی کے بعد خاوند صاحب کے طور طریقے بدل گے۔ لگتا نہیں تھا کہ یہ وہی ہیں جن کے منہ میں زبان بھی نہ تھی۔ شوہر نے جب نظریں بدل لیں تو دیور صاحب کے اوپر مہربانی کا بھوت سوار ہو گیا۔ میں نے گھر والوں سے شکایت کی اس کے خط پڑھوائے مگر کسی نے اثر نہ لیا۔ اس بے غیرت کے خط بھی ابھی تک میرے پاس ہیں۔ اب شوہر کہتے پھر رہے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو چھوڑ رہا ہوں۔ 

آپ سوچ نہیں سکتے کہ جس شخص کو میں اتنا اونچا سمجھتی تھی وہ ایسا نکلا تو میرا کیا حال ہو گا ۔ میں نے اپنی والدہ سے شکایت کی۔ انہوں نے سسرال والوں سے اور میرے شوہر سے کہا کہ تم یہ بے غیرتی کر رہے ہو۔ صاحب توبہ کریں۔ ان کے اوپر کسی کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنے ہر دوست سے یہی کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں۔ تم اس کے ساتھ شادی کر لو۔ تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔

جواب: یہ نفسیاتی کیس ہے۔ آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کر کے اپنے شوہر کا علاج کروائیں اور اپنے شوہر کی مجبوری سمجھ کر ان سے نفرت کرنے کی بجائے، ان سے پیار کریں۔ روحانی علاج یہ ہے۔ تین وقت ایک ایک چمچہ شہد کے اوپر ایک ایک بار سورہ کوثر پڑھ کر دم کر کے کھلائیں۔ رات کو سوتے وقت شوہر کے تکیہ کے دائیں بائیں ایک ایک گلاب کا پھول رکھ دیاکریں۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔