Topics

محسوس اور غیر محسوس

سوال: روح اور جسم کی تقسیم کر کے دونوں کے معاملات کو الگ کیوں سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جسمانی خواہشات کی جتنی نفی کی جائے گی روح کو اتنی ہی ترقی حاصل ہو گی۔ حالانکہ روح خود جسم کی محتاج ہوتی ہے کہ جسم نہ رہے تو زندگی کے کام کاج کس طرح سر انجام پائیں۔ روح اور جسم کی اس تقسیم کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: روح اور جسم دراصل ایک ہی بات ہے صرف طرز بیان میں فرق ہے جب ہم محسوسیت کی زبان میں بات کرتے ہیں تو جسم کہتے ہیں دراصل مرئی محسوس اور غیر مرئی محسوس ایک ہی چیز ہے بالکل اسی طرح جس طرح روح اور جسم ایک ہی چیز ہیں۔ جب حواس عمل کرتے ہیں تو محسوس  دنیازیر بحث آتی ہے اور جب ورائے محسوس قوت جس کو ذات بھی کہتے ہیں عمل کرتی ہے تو فکر اور خیال وغیرہ کام کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ روح دو دائروں میں کام کرتی ہے۔

1۔ ٹھوس اور محسوس طرز پر

2۔ غیر مرئی اور غیر محسوس طرز پر

چنانچہ ایک کو ہم محسوس دنیا اور دوسری کو غیر محسوس دنیا سمجھتے ہیں ساتھ ہی غیر محسوس دنیا ہمارے نزدیک ناقابل اعتماد ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ دونوں قابل اعتماد بھی ہیں اور ناقابل اعتماد بھی۔ جہاں تک ہماری فکر صحیح کام کرتی ہے یعنی اگر ہم فکر سے صحیح کام  لیں  تومعمول سے زیادہ خلئے فعال ہو جائیں اورانسان وہ آوازیں سننے لگتا ہے جوفضا میں موجود ہیں اور ماضی حال اور مستقبل پر محیط ہیں۔ آپ کی کیفیت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا لاشعور متحرک ہے۔ آپ چاہیں تو اسے اور زیادہ وسیع کر سکتی ہیں اس کے لئے آپ مراقبہ کیا کریں رات کو سونے سے پہلے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔